مدیر: ثمینہ راجہ

Monday, December 14, 2009

سعادت حسن منٹو

*
*
*
موذیل
====

ترلو چن نے پہلی مرتبہ ۔۔۔۔۔۔چار برسوں میں میں پہلی مرتبہ رات کو آسمان دیکھا تھا اور وہ بھی اس لئے کہ اس کی طبعیت سخت گھبرائی ہوئی تھی اور وہ نہ محض کھلی ہوا میں کچھ دیر سوچنے کیلئے اڈوانی چیمبرز کے ٹیرس پر چلا آیا تھا۔
آسمان بالکل صاف تھا بادلوں سے بے نیاز، بہت بڑے خاکستری تنبو کی طرح ساری بمبئی پر تنا ہوا تھا، حد نظر تک جگہ جگہ بتیاں روشن تھیں، ترلو چن نے ایسا محسوس کیا تھا کہ آسمان سے بہت سارے ستارے جھڑ کر بلڈنگوں سے جو رات کے اندھیرے میں بڑے بڑے درخت معلوم ہوتی تھیں، اٹک گئے، اور جگنوؤں کی طرح ٹمٹارہے ہیں۔
ترلوچن کیلئے یہ بالکل ایک نیا تجربہ، ایک نئی کیفیت تھی، ۔۔۔رات کو کھلے آسمان کے نیچے ہونا اس نے محسوس کیا کہ وہ چار برس تک اپنے فلیٹ میں قید رہا، اور قدرست تھی کہ ایک بہت بڑی نعمت سے محروم، قریب قریب تین بجے تھے، ہوا بے حد ہلکی ہلکی تھی، ترلو چن پنکھے کی میکانی ہوا کا عادی ہوچکا تھا، جو اس کے سارے وجود کو بوجھل کردیتی تھی، صبح اٹھ کر وہ ہمیشہ یوں محسوس کرتا تھا، کہ رات بھر اس اس کو مارا پیٹا گیا ہے، پر اب صبح کی قدرتی ہوا میں اس کے جسم کا رواں رواں، تروتازگی چوس کر خوش ہو رہا تھا، جب وہ اوپر آیا تھا تو اس کا دل و دماغ سخت مضطرب اور ہیجان زدہ تھا، لیکن آدھے گھنٹے ہی میں وہ اضطراب اور ہیجان جو اس کو بہت تنگ کر رہا تھا، کسی حد تک ٹھنڈا ہو گیا تھا اور اب صاف طور پر سوچ سکتا تھا۔ کرپال کو راور کا سارا خاندان۔۔۔۔۔محلے میں تھا، جو کٹر مسلمانوں کا مرکز تھا، یہاں کئی مکانوں کو آگ لگ چکی تھی، کئی جانیں تلف ہوچکی تھیں، ترلو چن ان سب کو لے آیا ہوتا، مگر مصیبت یہ تھی، کہ کرفیو نافذ ہوگیا تھا اور وہ بھی نہ جانے کتنے گھنٹوں کا۔۔۔۔غالبا اڑتالیس گھنٹوں کا ۔۔۔۔۔ اور ترلو چن لازما مغلوب تھا، آس پاس سب مسلمان تھے، بڑے خوفناک مسلمان تھے، اور پنجاب سے دھڑا دھڑ خبریں آرہی تھیں کہ وہاں سکھ مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھا رہے ہیں، کوئی بھی ہاتھ۔۔۔مسلمان ہاتھ بڑی آسانی سے نرم و نازک کرپال کور کی کلائی پکڑ کر موت کے کنوئیں کی طرف لے جاسکتا تھا۔
کرپال کی ماں اندھی تھی، باپ مفلوج، بھائی تھا، وہ کچھ عرصے سے دیوالی میں تھا کہ اسے وہاں اپنے تازہ تازہ لئے ہوئے ٹھیکے کی دیکھ بھال کرنا تھی، ترلو چن کو کرپال کے بھائی نرجن پر بہت غصہ آتا تھا، اس نے جو کہ ہر روز اخبار پڑھتا تھا، فسادات کی تیزی و تندہی کے متعلق ہفتہ بھر پہلے آگاہ کر دیا تھا، اور صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا، نر نجن یہ ٹھیکے ویکے رہنے دو ہم ایک بہت ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں، تمہارا اگر چہ رہنا بہت ضروری ہے، لیکن یہاں سے اٹھ جاؤں اور میرے یہاں چلے آؤ، اس میں کوئی شک نہیں کہ جگہ کم ہے، لیکن مصیبت کے دنوں میں آدمی کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیا کرتا ہے، مگر وہ مانا، اس کا اتنا بڑا لیکچر سن کر صاف اپنی گھنی موچھوں میں مسکرادیا، یار تم خواہ مخواہ فکر مند ہوتے ہو۔۔۔۔میں نے یہاں ایسے کئی فساد دیکھے ہیں، یہ امرتسر یا لاھور نہیں ہے، بمبے ہے۔۔۔۔۔بمبے تمہیں یہاں آئے صرف چار برس ہوئے ہیں، اور میں بارہ برس سے یہاں ہوں۔۔۔۔۔بارہ برس سے۔





جانے نرجن بمبئی کو کیا سمجھتا تھا، اس کا خیال تھا کہ یہ ایسا شہر ہے، اگر فساد برپا بھی ہو تو انکو اثر خود بخود زائل ہوتا ہے، جیسے کہ اس کے پاس چھو منتر ہے۔۔۔۔۔۔یا وہ کہانیوں کا کوئی ایسا قلعہ ہے، جس پر کوئی آفت نہیں آسکتی ہے مگر ترلو چن صبح کی ٹھنڈی ہوا میں صاف دیکھ رہا تھا کہ۔۔۔۔۔محلہ بالکل محفوظ نہیں، وہ تو صبح کے اخباروں میں یہ بھی پڑھنے کیلئے تیار تھا کہ کرپال کور اور اس کے ماں بار قتل ہو چکے ہیں۔اس کو کرپال کور کے مفلوج باپ اور اس کی اندھی ماں کی کوئی پرواہ نہیں تھی، وہاں دیو لالی میں اس کا بھائی نرنجن بھی مارا جاتا تو اور بھی اچھا تھا، کہ ترلو چن کیلئے میدان صاف ہوجاتا، خاص طور پر نجن اس کے راستے میں ایک روڑا ہی نہیں، بہت بڑا گھنگھرا تھا چناچہ جب کبھی کرپال کور اس کی بات ہوتی تو وہ اسے نرنجن سنگھ کے بجائے کھنگر سنگھ کہتا۔
صبح کی ہوا دھیرے دھیرے بہہ رہی تھی۔۔۔۔ ترلو چن کا کیسوں سے بے نیاز سر بڑی خوشگوار ٹھنڈک محسوس کر رہا تھا مگر اس کی زندگی میں داخل ہوئی تھی، وہ یوں تو ہے کئے کھنگھر سنگھ کی بہن تھی، مگر بہت ہی نرم، نازک لچکیلی تھی، اس نے دیہات میں پرورش پائی تھی، وہاں کی کئی گرمیاں سردیاں دیکھیں تھیں، مگر اس میں وہ سختی، وہ گھٹاؤ، وہ مردانہ پن، نہیں تھا، جو دیہات کی عام سکھ لڑکیوں میں ہوتا ہے، جنہیں کڑی سے کڑی مشقت کرنے پڑتی ہے۔
اس کے نقش پتلے پتلے تھے، جیسے ابھی نامکمل ہیں، چھوٹی چھوٹی چھاتیاں تھیں جن پربالائیوں کی چند اور تہیں چڑھنے کی ضرورت تھی، عام سکھ لڑکیوں کے مقابلے میں اس کا رنگ گورا تھا مگر کورے لٹھے کی طرح اور بدن چکنا تھا، جس طرح مرسی رائنز کپڑے کی سطح ہوتی ہے، بے حد شرمیلی تھی۔
ترلو چن اسی کے گاؤں کا تھا، مگر زیادہ دیر وہا رہا نہیں تھا، پرائمری سے نکل کر جب وہ شہر کے ہائی اسکول میں گیا تو بس پھر وہیں کا ہو گیا، اسکول سے فارغ ہوکر کالج کی تعلیم شروع ہوگئی، اس دوران میں کئی مرتبہ لاتعداد مرتبہ اپنے گاؤں گیا، مگر اس نے کرپال کور کے ناک کی کسی لڑکی کا نام تک نہ سنا شاید اس لئے کہ ہر بار اس افرا تفری میں رہتا تھا کہ جلد از جلد واپس شہر پہنچے۔
کالج کا زمانہ بہت پیچھے رہ گیا تھا، اڈوانی چیمبرز کے ٹیریس اور کالج کی عمارت میں غالبا دس برس کا فاصلہ اور یہ فاصلہ ترلو چن کی زندگی کے عجیب و غریب واقعات سے پر تھا، برما، سنگا پور، ہانگ کانگ۔۔۔۔پھر بمبئی جہاں وہ چار برس سے مقیم تھا۔ان چار برسوں میں اس نے پہلی مرتبہ رات کو آسمان کی شکل دیکھی تھی، جو بری نہیں تھی۔۔۔۔خاکستری رنگ کے تنبو کی چھت میں ہزار ہادئیے، روشن تھے، اور ہوا ٹھنڈی اور ہلکی پھلکی تھی۔
کر پال کور کا سوچتے سوچتے، وہ موذیل کے متعلق سوچنے لگا، اس یہودی لڑکی کے بارے جو اڈوانی چیمبرز میں رہتی تھی، اس سے ترلو چن کو گوڈے گوڈے عشق ہوگیا تھا، ایسا عشق جو اس نے اپنی پینتیس برس کی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔
جس دن اس نے اڈوانی چیمبرز میں اپنے ایک عیسائی دوست کی معرفت دوسرے مالے پر فلیٹ لیا اسی دن اس کی مدبھیڑ موذیل سے ہوئی۔ گو پہلی نظر دیکھنے پر اسے خوفناک دیوانی معلوم ہوئی، کٹے ہوئے بھورے بال، اس کے پریشان تھے، بے حد پریشان، ہونٹوں پر لپ اسٹک یوں جمی جیسے گاڑھا خون اور وہ بھی جگہ جگہ سے چیختی ہوئی تھی، ڈھیلا ڈھالا لمبا سفید چغہ پہنے تھی، جس کے کھلے گریباں سے اس کی نیل پڑی بڑی بڑی چھاتیا چوتھائی کے قریب نظر آرہی تھی، بانہیں جو کہ ننگی تھیں، مہین مہین بالوں سے اٹی ہوئی تھیں، جیسے وہ ابھی ابھی کسی سیلون سے بال کٹوا کر آئی ہے، اور ان کی نھنی نھنی ہوائیاں ان پر جم گئی ہیں۔
ہونٹ اتنے موٹے نہیں تھے مگر گہرے عنابی رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس انداز سے لگائی گئی تھی، کہ وہ موٹے اور بھینسے کے گوشت کے ٹکڑے معلوم ہوتے تھے۔
ترلو چن کا فلیٹ اس کے فلیٹ کے بالکل سامنے تھا بیچ میں ایک تنگ گلی تھی، بہت ہی تنگ، جب ترلو چن اپنے فلیٹ میں داخل ہونے کیلئے آگے بڑھا تو موذیل باھر آگئی، کھڑاؤں پہنے تھی، ترلو چن ان کی آواز سن کر رک گیا، موذیل نے اپنے پریشان بالوں کی چقوں مین سے بڑی بڑی آنکھوں سے ترلو چن کی طرف دیکھا اور ہنسی۔۔۔۔۔۔ترلو چن بوکھلا گیا، جیب سے چابی نکال کر وہ جلدی سے دروازے کی جانب بڑھا، موذیل کی ایک کھڑاؤں سیمنٹ کے چکنے فرش پر پھسلی اور اس کے اوپر آرہی۔
جب ترلو چن سنبھلا تو موذیل اس کے اوپر تھی، کچھ اس طرح کہ اس کا لمبا چغہ اوپر چڑھ گیا تھا اور اس کی دو ننگی، بڑی تگڑی ٹانگیں اس کے ادھر ادھر تھیں، اور جب ترلو چن نے اٹھنے کی کوشش کی تو بوکھلاہٹ میں کچھ اس طرح موذیل۔۔۔۔۔ساری موذیل سے الجھا جیسے وہ صابن کی طرح اس کے سارے بدن پر پھر گیا ہے۔جب ترلو چن نے ہانپتے ہوئے مناسب و موزوں الفاظ میں اس سے معافی مانگی، موذیل نے اپنا لبادھ ٹھیک کیا اور مسکرادی یہ کھڑاؤں ایک دم کنڈم چیز ہے، اور وہ اتری ہوئی کھڑاؤں میں اپنا انگوٹھا اور اس کے ساتھ والی انگلی پھنساتی کوریڈور سے باہر چلی گئی۔
تر لو چن کا خیال تھا کہ موذیل سے دوستی پیدا کرنا شاید مشکل ہو لیکن وہ بہت ہی تھوڑے عرصے میں اس سے گھل مل گئی، لیکن ایک بات تھی کہ وہ بہت خود سر تھی، وہ ترلو چن کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی تھی، اس سے کھاتی تھی، اس سے پیتی تھی، اس کے ساتھ سینما جاتی تھی، سارا سارا دن اس کے ساتھ جو ہو پر نہاتی تھی، لیکن جب وہ بانہوں اور ہونٹوں سے آگے بڑھنا چاہتا تو اسے ڈانٹ دیتی، کچھ اس طور پر سے گھر کتی کہ اس کے سارے ولولے اس کی داڑھی اور مونچھو میں چکر کاٹتے رہ جاتے۔
ترلو چن کو پہلے کسی کے ساتھ محبت نہیں ہوئی تھی، لاہور میں، برما، سنگاپور میں وہ لڑکیاں کچھ عرصے کے لئے خریدچکا تھا، اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ بمبئے پہنچتے ہی وہ ایک نہایت الہڑ قسم کی یہودی لڑکی کے عشق میں گوڈے گوڈے دھنس جائے گا، وہ اس سے کچھ عجیب قسم کی بے اعتنائی اور بے التفاتی برتتی تھی، اس کے کہنے پر فورا سج بن کر سینماجانے پر تیار ہوجاتی تھی، مگر جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتے تو ادھر ادھر نگاہیں دوڑانا شروع کر دیتی، کوئی اس کا آشنا نکل آئے تو اس سے ہاتھ ہلاتی اور ترلو چن سے اجازت لئے بغیر اس کے پہلو میں جا بیٹھتی۔
ہوٹل میں بیٹھے ہیں ترلو چن نے خاص طور پرموذیل کیلئے پر تکلف کھانے منگوائے ہیں، مگر اس کو کوئی اپنا دوست نظر آ گیا اور وہ نوالہ چھوڑ کر پاس جا بیٹھتی ہے اور ترلو چن کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔
ترلو چن بعض اوقات بھناجاتا تھا، کیونکہ وہ اسے قطعی طور پر چھوڑ کر اپنے ان پرانے دوستوں اور شناساؤں کے ساتھ چلی جاتی تھی، اور کئ کئی دن اس سے ملاقات نہ کرتی تھی، کبھی سر درد کا بہانہ، کبھی پیٹ کی خرابی، جس کے متعلق ترلو چن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ فولاد کی طرح سخت ہے اور کبھی خراب نہیں ہوسکتا۔جب اس سے ملاقات ہوتی ہے تو اس سے کہتی ہے، تم سکھ ہو۔۔۔۔۔یہ نازک باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتیں۔
ترلوچن بھن جاتا اور پوچھتا کون سی نازک باتیں۔۔۔تمہارے پرانے یاروں کی؟
موذیل دونوں ہاتھ جوڑے چکلے کولہوں پر لٹکا کر اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کر دیتی اور کہتی یہ تم مجھے ان کے طعنے کیا دیتے رہتےہو۔۔۔۔۔ہاں وہ میرے یار ہیں۔۔۔۔اور مجھے اچھے لگتے ہیں، تم جلتے ہو تو جلتے رہو۔
ترلو چن بڑے وکیلانہ انداز میں پوچھتا ہے اس طرح تمہاری میری کس طرح نبھے گی۔
موذیل زورکا قہقہہ لگاتی ہے، تم سچ مچ سکھ ہو۔۔۔۔ایڈیٹ تم سے کس نے کہا کہ میرے ساتھ نبھاؤ۔۔۔۔۔اگر نبھانے کی بات ہے تو جاؤ اپنے وطن میں کسی سکھنی سے شادی کر لو۔۔۔۔میرے ساتھ تو اسی طرح چلے گا۔
ترلو چن نرم ہو جاتا، دراصل موذیل اس کی زبردست کمزور ی بن گئی تھی، وہ ہر حالت میں اس کی قربت کا خواہشمند تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ موذیل کی وجہ سے اس کی اکثر توہین ہوتی تھی، معمولی کرسٹان لونڈوں کے سامنے جن کی حقیقت ہی نہیں تھی، اسے خفیف ہونا پڑتا تھا، مگر دل سے مجبو رہو کر یہ سب کچھ برداشت کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔
عام طور پر توہین اور ہتک کا رد عمل انتقام ہوتا ہے، مگر ترلو چن کے معاملے میں ایسا نہیں تھا، اس نے اپنے دل و دماغ کی بہت سے آنکھیں میچ لی تھی، اور کئی کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی، اس کو موذیل پسند تھی۔۔۔۔ پسند ہی نہیں جیسا کہ وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا گوڈے گوڈے اس کے عشق میں دھنس گیا تھا، اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا اس کے جسم کا جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے وہ بھی اس عشق کے دلدل میں چلا جائے اور قصہ ختم ہو۔
دو برس تک وہ اسی طرح خوار ہوتا رہا، لیکن ثابت قدم رہا، آخر ایک روز جب کہ موذیل موج میں تھی، اپنے بازؤں میں سمیٹ کر پوچھا موذیل کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو۔موذیل اس کے بازؤں سے جدا ہوگئی اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے فراک کا گھیرا دیکھنے لگی پھر اس نے اپنی موٹی موٹی یہودی آنکھیں اٹھائیں اور گھنی پلکیں چھپکا کر کہا، میں سکھ سے محبت نہیں کرسکتی ۔
ترلو چن نے ایسا محسوس کیا کہ پگڑی کے نیچے اس کے کیسوں میں کسی نے دہکتی ہوئی چنگاریاں رکھ دی ہیں، اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔۔۔۔۔موذیل تم ہمیشہ میرا مذاق اڑاتی ہو۔۔۔۔یہ میرا مذاق نہیں، میری محبت کا مذاق ہے۔
موذیل اٹھی اور اس نے بھورے ترشے ہوئے بالوں کو ایک دلفیرب جھٹکا دیا، تم شیو کرا لو اور اپنے سر کے بال کھلے چھوڑ دو۔۔۔تو میں شرط لگاسکتی ہو ں کہ کئ لونڈے تمہیں آنکھ ماریں گے۔۔۔۔تم خوبصورت ہو۔
ترلو چن کے کیسوں میں مزید چنگاریاں پڑ گئیں، اس نے آگے بڑھ کر زور سے موذیل کو اپنی طرف گھسٹیا اور اس کے عنابی ہونٹوں میں اپنے مونچھوں بھرے ہونٹ پیوست کردئیے۔
موذیل نے ایک دم پھوں پھوں کی اوراس کی گرفت سے علیحدہ ہوگئی، میں صبح اپنے دانتوں کو برش کرچکی ہوں، تم تکلیف نہ کرو۔
ترلوچن چلایا، موذیل۔
موذیل وینٹی بیگ سے ننھا سا آئینہ نکال کر اپنے ہونٹ دیکھنے لگی جس پر لگی ہوئی گاڑھی لپ اسٹک پر خراشیں آگئی تھیں، خدا قسم ۔۔۔تم اپنی داڑھی اور مونچھوں کا صیح استعمال نہیں کرسکتے ۔۔۔۔۔ان کے بال ایسے اچھے ہیں کہ میرا نیوی بلو اسکرٹ بہت اچھی طرح صاف کرسکتے ہیں،۔۔۔۔بس تھوڑا سا پیٹرول لگانے کی ضرورت ہوگی۔







ترلو چن غصے کی اس انتہا تک پہنچ چکا تھا، جہاں وہ بالکل ٹھنڈا ہوگیا تھا، آرام سے صوفے پر بیٹھ گیا، موذیل بھی آگئی اور اس نے ترلو چن کی داڑھی کھولنی شروع کردی۔۔۔۔اس میں جو پنیں لگی تھیں وہ اس نے ایک ایک کرکےاپنے دانتوں تلے دبالیں۔
ترلوچن خوبصورت تھا، جب اس کے داڑھی مونچھ نہیں اگی تھی تو واقعی لوگ اس کے کھلے گیسؤوں کے ساتھ دیکھ کر دھوکا کھاجاتے تھے، کہ وہ کوئی کم عمر خوبصورت لڑکی ہے۔مگر بالوں کے اس انبار نے اب اس کے تمام خدوخال جھاڑیوں کے مانند اندر چھپا لئے تھے، اس کو اس کا احساس تھا، مگر وہ ایک اطاعت شعار بردار لڑکا تھا، اس کے دل میں مذہب کا احترام تھا، وہ نہیں چاہتا تھا، کہ ان چیزوں کو اپنے وجود سے الگ کر دے، جن سے اس کے مذہب کی ظاہری تکمیل ہوتی تھی۔
جب داڑھی پوری کھل گئی اور اسکے سینے پر لٹکنے لگی تو اس نے موذیل سے پوچھا ، یہ تم کیا کر رہی ہو؟
دانتوں میں پنیں دبائے وہ مسکرائی،تمہارے بال بہت ملائم ہیں۔۔۔۔۔میرا اندازہ غلط تھا کہ ان سے میرا نیوی بلو اسکرٹ صاف ہوجائے گا تر لوچ تم یہ مجھے دے دو میں انہیں گوندھ کر اپنے لئے ایک فسٹ کلاس بٹوا بناؤں گئی۔
اب تو ترلو چن کی داڑھی میں چنگاریاں پھڑکنے لگیں، وہ بڑی سنجیدگی سے موذیل سے مخاطب ہوا، میں نے آج تک تمہارے مذہب کا مذاق اڑایا ہے تم کیوں اڑاتی ہو۔۔۔دیکھو کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اچھا نہیں ہوتا۔۔۔میں یہ کبھی برداشت نہ کرتا مگر صرف اس لئے کرتا ہوں کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔۔۔۔کیا تمہیں اس کا پتہ نہیں۔
موذیل نے ترلو چن کی داڑھی سے کھیلنا بند کردیا، معلوم ہے۔
پھرترلو چن نے اپنی داڑھی کے بال بڑی صفائی سے تہہ کئے اور موذیل کے دانتوں سے پنیں نکال لیں، تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میری محبت بکواس نہیں۔۔۔میں تم سےشادی کرنا چاہتا ہوں۔
مجھے معلوم ہے، بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر وہ اٹھی اور دیوار سے لٹکی ہوئی تصویر کی طرف دیکھنے لگی، میں بھی قریب یہی فیصلہ کرچکی ھو کہ تم سے شادی کروں گی۔
ترلو چن اچھل پڑا سچ؟
موذیل کے عنابی ہونٹ موٹی مسکراہٹ کے ساتھ کھلے اور اس کے سفید مخبوط دانت ایک لحظے کیلئے چمکے۔ہاں۔
ترلو چن نے اپنی نصف لپٹی ہوئی داڑھی ہی سے اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھییچ لیا۔
تو تو کب؟
موذیل الگ ہٹ گئی ، جب۔۔۔۔۔تم اپنے بال کٹوا دو گے جب۔
ترلو چن اس وقت جو ہو سو ہو تھا، اس نے کچھ نہ سوچا اور کہہ دیا میں کل ہی کٹوادوں گا۔
موذیل فرش پر ٹیپ ڈانس کرنے لگی، تم بکواس کرتے ہو ترلوچ۔۔۔۔۔تم میں اتنی ہمت نہیں ہے۔
اس نے ترلو چن کے دل و دماغ سے مذہب کے رہے سہے خیال کو نکال باہر پھینکا، تم دیکھ لو گی۔
اور وہ تیزی سے آگے بڑھی ترلوچ کی مونچھوں کو چوما اور پھو پھوں کرتی باہر نکل گئی۔
ترلو چن نے رات بھر کیا سوچا۔۔۔وہ کن کن اذیتوں سے گزرا، اس کا تذکرہ فضول ہے اس لئے کہ دوسرے روز اس نے فورٹ میں اپنے کیس کٹوادئیے اور داڑھی بھی منڈوادی۔۔۔۔یہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ آنکھیں میچے رہا، جب سارا معاملہ صاف ہوگیا تو اس نے آنکھیں کھول لیں اور دیر تک اپنی شکل آئینے میں دیکھتا رہا، جس میں بمبئی کی حسین سے حسین لڑکی بھی کچھ دیر کیلئے غور کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
ترلو چن وہی عجیب و غریب ٹھنڈک محسوس کرنے لگا تھا، جو سیلون سے باہر نکل کر اس کو لگی تھی، اس نے ٹیرس پر تیز تیز چلنا شروع کردیا، جہاں ٹینکوں اور نلوں کا ایک ہجوم تھا وہ چاہتا تھا کہ اس داستان کا بقایا حصہ اس کے دماغ میں نہ آئے مگر وہ بن نہ رہا۔
بال کٹوا کر وہ پہلے دن گھر سے باہر نہیں نکلا تھا، اس نے اپنے نوکر کے ہاتھ دوسرے روز چٹ موذیل کی بھیجی کہ اس کی طبعیت ناساز ہے تھوڑی دیر کیلئے آجائے، موذیل آئی ترلو چن کو بالوں کے بغیر دیکھ کر پہلے وہ ایک لحظے کیلئے ٹھٹکی پھر مائی ڈارلنگ ترلوچن کے صاف اور ملائم گالوں پر ہاتھ پھیرا اس کے چھوٹے انگریزی وضع کے کٹے ہوئے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کی اور عربی زبان مین نعرے مارتی رہی، اس نے اس قدر شور مچایا کہ اس کی ناک سے پانی بہنے لگا۔۔۔۔۔۔موذیل نے جب اسے محسوس کیا تو اپنی اسکرٹ کا گھیرا اٹھایا اور اسے پونچھنا شروع کردیا۔۔۔۔ ترلو چن شرما گیا، اس نے اسکرٹ نیچی کی اور سرزنش کے طور پراس سے کہا، نیچے کچھ پہن تو لیا کرو۔
موذیل پر اس کا کچھ اثر نہ ھوا، باسی اور جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی لپ اسٹک لگے ہونٹوں سے مسکرا کر اس نے صرف اتنا ہی کہا مجھے بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے۔۔۔۔۔ ایسے ہی چلتا ہے۔
ترلوچن کو وہ پہلا دن یاد آگیا جب وہ موذیل دونوں ٹکرا گئے اور آپس میں عجیب طرح گڈ مڈ ہوگئے تھے، مسکرا کر اس نے موذیل کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا، شادی کل ہوگی؟
ضرور، موذیل نے ترلو چن کی ملائم تھوڑی پر اپنے ہاتھ کی پشت پھیری۔
طے یہ ہوا کہ شادی پونے میں ہو، چونکہ سول میرج تھی، اس لئے ان کو دس پندرہ دن کا نوٹس دینا تھا، عدالتی کارروائی تھی، اس لئے مناسب یہی خیال کیا گیا کہ پونہ بہتر ہے، پاس ہے اور ترلو چن کے وہاں کئی دوست بھی ہیں، دوسرے روز انہیں پروگرام کے مطابق پونہ روانہ ہوجاتا تھا۔
موذیل فورٹ کے ایک اسٹور میں سیلز گرل تھی، اس سے کچھ فاصلے پر ٹیکسی اسٹینڈ تھا، بس یہیں موذیل نے اس کو انتظار کرنے کیلئے کہا تھا، ۔۔۔ترلوچن وقت مقررہ پر وہاں پہنچا، ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرتا رہا، مگر وہ نہ آئی، دوسرے روز اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ جس نے تازہ تازہ موٹر خریدی ہے، دیولالی چلی گئی ہے اور ایک غیر معین عرصے کیلئے وہیں رہے گی۔
ترلوچن پر کیا گزری؟۔۔۔ایک بڑی لمبی کہانی ہے، قصہ مختصر یہ ہے کہ اس نے جی کڑاکیا اور اس کو بھول گیا۔۔۔۔ اتنے میں اس کی ملاقات کرپال کور سے ہوگئی اور وہ اس سے محبت کرنے لگا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس نے محسوس کیا کہ موذیل بہت واہیات لڑکی تھی، جس کے دل کے ساتھ پتھر لگے ہوئے ہیں اور جو چڑوں کی مانند ایک جگہ سے دوسری جگہ پھدکتا رہتا تھا، اس احساس سے اسکو گونہ تسکین ہوئی تھی کہ وہ موذیل سے شادی کرنے کی غلطی نہ کر بیٹھا تھا۔لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی موذیل کی یاد میں ایک چٹکی کے مانند اس کے دل کو پکڑ لیتی تھی اور پھر چھوڑ کر کد کڑے لگاتی غائب ہوجاتی تھی۔
وہ بے حیا تھی۔۔۔۔۔بے مروت تھی، اس کو کسی کے جذبات کا پاس نہیں تھا ترلو چن کو پسند تھی، اس لئے کبھی کبھی اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا، کہ وہ دیولالی میں اتنے عرصے سے کیا کر رہی ہے،، اس آدمی کے ساتھ ہے جس نے نئی نئی کار خریدی تھی، یا اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلی گئی ہے، اس کو اس خیال سے سخت کوفت ہوتی تھی کہ وہ اس کے سوا کسی اور کے پاس ہوگی، حالانکہ اس کو موذیل کے کردار کا بخوبی علم تھا۔
وہ اس پر سینکڑوں نہیں ہزاروں روپے خرچ کر چکا تھا، لیکن اپنی مرضی سے، ورنہ موذیل مہنگی نہیں تھی، اس کو بہت سسی قسم کی چیزیں پسند آتی تھی، ایک مرتبہ ترلو چن نے اسے سونے کی ٹوپس دینے کا ارادہ کیا جو اسے بہت پسند تھے مگر اسی دکان میں موذیل جھوٹے اور بھڑکیلے اور بہت سستے آویزوں پر مرمٹی اور سونے کے ٹوپس چھوڑ کر ترلو چن سے منتیں کرنے لگی کہ وہ انہیں خرید دے۔
ترلو چن اب تک نہ سمجھ سکا کہ موذیل کس قماش کی لڑکی ہے، کس آب و گل سے بنی ہے، وہ گھنٹوں اس کے ساتھ لیٹی رہتی تھی اور اس کو چومنے کی اجازت دیتی تھی، وہ سارا کا سارا صابن کی مانند اس کے جسم پر پھر جاتا تھا، مگر وہ اسکو اس سے آگے ایک انچ نہ بڑھنے دیتی تھی، اس کو چرانے کی خاطر اتنا کہہ دیتی کہ تم سکھ ہو۔۔۔۔مجھے تم سے نفرت ہے۔
ترلو چن اچھی طرح محسوس کرتا تھا، کہ موذیل کو اس سے نفرت نہیں ہے،اگر ایسا ہوتا تو وہ اس سے کبھی نہ ملتی، برداشت کا مادہ اس میں رتی بھر نہیں تھا، وہ کبھی کبھار دو برس تک اس کی صحبت میں نہ گزارتی، دو ٹک فیصلہ کردیتی، انڈروئیر اس کو ناپسند تھے اس لئے کہ ان سے اس کو الجھن ہوتی تھی، ترلو چن نے کئی بار اسکو ان کی اشد ضرورت سے آگاہ کیا، اسکو شرم و حیا کا واسطہ دیا، مگر اس اس نے یہ چیز کبھی نہ پہنی۔
ترلو چن جب اس سے حیا کی بات کرتا تھا تو وہ چڑ جاتی تھی، یہ حیا ویا کیا بکواس ہے۔۔۔اگر تمہیں اس کا کچھ خیال ہے تو آنکھیں بند کرلیا کرو۔۔۔۔تم مجھے یہ بتاؤ کہ کون سا لباس ہے جس میں آدمی ننگا نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔۔یا جس میں سے تمہاری نگاہیں پار نہیں ہوسکتیں۔۔۔۔۔۔مجھ سے ایسی بکواس نہ کیا کرو۔۔۔۔۔تم سکھ ہو۔۔۔۔۔مجھے معلوم ہے کہ تم پتلون کے نیچے ایک سلی انڈروئیر پہنتے ہو جو نیکر سے ملتاجلتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ بھی تمہاری داڑھی اور سر کے بالوں کی طرح تمہارے مذہب میں شامل ہے۔۔۔۔۔شرم آنی چاہئیے۔۔۔۔۔۔اتنے بڑے ہوگئے اور ابھی تک یہی سمجھتے ہو کہ تمہارا مذہب انڈروئیر میں چھپا بیٹھا ہے۔
ترلو چن کو شروع شروع میں ایسی باتیں سن کر غصہ آیا تھا مگر بعد میں غور و فکر کرنے پر وہ کبھی کبھی لڑھک جاتا تھا اور سوچتا تھا کہ موذیل کی باتیں شاید نادرست نہیں اور جب اس نے اپنے کیسوں اور داڑھی کا صفایا کرادیا تھا تو اسے قطعی طور پر ایسا محسوس ہوا کہ وہ بیکار اتنے دن بالوں کا بوجھ اٹھائے پھرا جس کا کچھ مطلب نہیں تھا۔
پانی کی ٹنکی کے پاس پہنچ کر ترلو چن رک گیا، موذیل کو ایک بڑی موٹی گالی دے کر اس نے اس کے متعلق سوچنا بند کردیا،۔۔۔کرپال کور، ایک پاکیزہ لڑکی جس سے اس کو محبت ہوئی تھی، خطرے میں تھی، وہ ایسے محلے میں تھی، جس میں کٹر قسم کے مسلمان رہتے تھے اور وہاں دو تین وارداتیں بھی ہوچکیں تھیں۔۔۔۔۔لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس محلے میں اڑتالیس گھنٹے کا کرفیو تھا، مگر اڑتالیس گھنٹے کے کرفیو کی کون پروا کرتا ہے، اس چالی کے مسلمان اگر چاہتے تو اندر ہی اندر کرپال کا، اس کی ماں کا، اس کے باپ کا بڑی آسانی کے ساتھ صفایا کرسکتے تھے۔
ترلو چن سوچتا سوچتا پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گیا، اس کےسر کے بال اب کافی لمبے ہو گئے تھے، اس کو یقین تھا کہ ایک برس کے اندر اندر یہ پورے کیسیوں میں تبدیل ہو جائیں گے، اس کی داڑھی تیزی سے بڑھی تھی مگر اسے بڑھانا نہیں چاہتا تھا، فورٹ میں ایک باربر تھا، وہ اس صفائی سے اسے تراشتا تھا، کہ ترشی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔۔۔۔
اس نے اپنے لمبے اور ملائم بالوں میں انگلیاں پھیریں اور ایک سرد آہ بھری۔۔۔اٹھنے کا ارادہ کرہی رہا تھا۔۔۔ کہ اسے کھڑاؤں کی کرخت آواز سنائی دی، اس نے سوچا کون ہو سکتا ہے؟۔۔بلڈنگ میں کئی یہودی عورتیں تھیں، جو کہ سب کھڑاؤں پہنتی تھیں۔۔۔۔۔۔آواز قریب آتی گئی، یک لخت اس نے دوسری ٹنکی کے پاس موذیل کو دیکھا۔جو یہودیوں کی خاص قطع کا ڈھیلا ڈھالا کرتہ پہنے بڑے زور کی انگڑائی لے رہی تھی۔۔۔۔۔اس زور کی کہ ترلو چن کو محسوس ہوا کہ آس پاس کی ہوا چٹخ جائے گی۔
ترلو چن پانی کے نل پر سے اٹھا، اس نے سوچا یہ ایکاایک کہاں سے نمودار ہوگئی۔۔۔۔اور اس وقت ٹیرس پر کیا کرنے آئی ہے؟
موذیل نے ایک اور انگڑائی لی۔۔۔۔۔۔۔اب ترلو چن کی ہڈیاں چٹخنے لگیں۔
ڈھیلے ڈھالے کرتے میں اس کی مضبوط چھاتیاں دھڑکیں۔۔۔۔۔۔۔ترلو چن کی آنکھوں کے سامنے کئ گول گول اور چپٹے چپٹے نیل ابھر آئے، وہ زور سے کھانسا ، موذیل نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا، اس کا رد عمل بالکل خفیف تھا، کھڑاؤں گھسٹتی وہ اس کے پاس آئی اور اس کی نھنی منی داڑھی دیکھنے لگی، تم پھر سکھ بن گئے تر لو چ؟
داڑھی کے بال ترلوچن کو چبھنے لگے۔
موذیل نے آگے بڑھ کر اس کی ٹھوڑی کے ساتھ اپنے ہاتھ کی پشت رگڑی اور مسکرا کر کہا، اب یہ برش اس قابل ہے کہ میری نیوی بلو اسکرٹ صاف کرسکے۔۔۔مگر وہ تو وہیں دیوالالی میں رہ گئی ہے۔
ترلوچ خاموش رہا۔
موذیل نے اس کے بازو کی چٹکی لی بولتے کیوں نہیں سردار صاحب؟
ترلوچن اپنی پچھلی بے وقوفیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہتا تھا، تاہم اس نے صبح کے ہلکے اندھیرے میں موذیل کے چہرے کو غور سے دیکھا۔۔۔۔کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی، ایک طرح وہ پہلے سے کچھ کمزور نظر آتی تھی، ترلوچن نے اس سے پوچھا، بیمار رہی ہو؟
نہیں موذیل نے اپنے تراشے ہوئے بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔
پہلے سے کمزور دکھائی دیتی ہو؟
میں ڈائیٹنگ کر رہی ہوں، موذیل پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گئی اور کھڑاؤں فرش کے ساتھ بجانے لگی، تم گویا کہ ۔۔۔۔اب پھر۔۔۔نئے سرے سے سکھ بن رہے ہو۔


====================================

Majeed Amjad

*
*
*
Majeed Amjad (1914 – 1974) (Urdu: مجید امجد ) was one of the greatest of modern Urdu poets of the Indian subcontinent. In the popular culture he is not as well known or widely read as Faiz Ahmed Faiz, Noon Meem Rashid, Nasir Kazmi or Meeraji but amongst the cognoscenti and many critics he is widely regarded as a philosophical poet of great depth and sensitivity. His refined poetic mind was not widely recognized in his lifetime as he lived a life of bureaucratic obscurity in a small West Punjabi town. Also, he was not in the forefront of any political literary movements (such as the leftist "Progressive Writers Movement") that actively promoted even mediocre poets from within their own ranks.





Majeed Amjad was born on June 29th, 1914 in Jhang, a small town in the Pakistani province of Punjab. He was born into a fairly poor but respectable family. However, he was only two years old when his parents separated and his mother moved back into her parents' house with the young boy. Early on, Majeed Amjad was taught by his maternal grandfather. Then for a few years he studied Arabic and Persian at a local mosque before enrolling in first grade in a government school. He passed his Matriculation exam in first division from Islamia High School, Jhang. Two years later he completed his Intermediate exam, also in first division from Government College, Jhang. Since at the time there were no educational institutions of higher learning in Jhang he moved to Lahore and eventually received his Bachelor's degree in 1934 from Islamia College Railway Road in Lahore.

These were the days of the Great Depression and economic opportunities were limited even for highly educated people. Majeed Amjad returned to Jhang and joined a weekly newspaper named "Arooj". He remained an editor of the newspaper until 1939. Both his prose and poetry were regularly published in the weekly. At the advent of the Second World War, a poem of his against the British Empire was printed on the front page of Arooj and he was forced to leave the newspaper. After that he found a job as a clerk in the Jhang District Board. In 1944, the government set up a civil supplies department to ration food and clothing. He passed an entrance exam and joined this department and stayed on with the Food Department until his retirement in 1972 at the age of 58, when he was residing in Montgomery (now Sahiwal). He lived in many small and large towns all over Punjab during his employment with the Food Department including Lyallpur (now Faisalabad), Gojra, Muzaffargarh, Rawalpindi, Lahore and Montgomery. He was married to one of his cousins in 1939. His wife was an elementary school teacher but their personalities were not compatible. His marriage was a total disaster. He passed the last twenty eight years in Sahiwal while his wife stayed in Jhang. Majeed Amjad breathed his last on May 11, 1974. They had no children.
The first collection of his poetry, "Shab-e-Rafta", was published in 1958 for which he wrote a beautiful preface in verse. This was published by "Naya Idara" in Lahore. This was the only collection published in his lifetime even though Majeed Amjad had written fairly extensively all his life. After his death, the manuscripts of his unpublished poetry were preserved by Mr. Javaid Qureshi who was then the Deputy Commissioner of Sahiwal. In 1976, Mr. Qureshi with the help of some other people, published a second collection of his poetry titled "Shab-e-Rafta Ke Baad". It was not until 1989 that the Urdu critic Dr. Khawaja Muhammad Zakariya edited and published a complete collection of his works called "Kuliyat-e-Majeed Amjad".





Majeed Amjad was fluent in English and Persian and had deep familiarity with Arabic and Hindi. He had read widely and was well exposed to western literature as well as learning in the sciences (particularly astronomy) and social sciences. These catholic tastes were evident in his poetry. He translated several modern American poets that he had read in an American poetry anthology.
Majeed Amjad had an incredibly original and distinctive poetic voice. The variety of themes and innovative forms in his poetry are startling and one is hard pressed to find other modern Urdu poets with such a range and depth.


===================================

مجید امجد

*
*
*
بنے یہ زہر ہی وجہِ شفا، جو تو چاہے
خرید لوں میں یہ نکلی دوا، جو تو چاہے

تجھے تو علم ہے کیوں میں نے اس طرح چاہا
جو تو نے یوں نہیں چاہا تو کیا، جو تو چاہے

جب ایک سانس گھسے، ساتھ ایک نوٹ پسے
نظامِ زر کی حسیں آسیا، جو تو چاہے

ذرا شکوہِ دو عالم کے گُنبدوں میں لرز
پھر اس کے بعد تیرا فیصلہ، جو تو چاہے

سلام ان پر، تہِ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تو چاہے

جو تیرے باغ میں مزدوریاں کریں امجد
کھلیں وہ پھول بھی اک مرتبہ، جو تو چاہے


منٹو


میں نے اس کو دیکھا ہے
اجلی اجلی سڑکوں پر
اک گرد بھری حیرانی میں
پھیلتی پھیلتی بھیڑ کے اندھے اوندھے
کٹوروں کی طغیانی میں
جب وہ خالی بوتل پھینک کر کہتا ہے:
" دنیا تیرا حسن یہی بدصورتی ہے-"
دنیا اس کو گھورتی ہے
شورِ سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے
انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال
کون ہے یہ جس نے اپنی بہکی بہکی سانسوں
کا جال
بامِ زماں پر پھینکا ہے
کون ہے جو بل کھاتے ضمیروں کے پرپیچ
دھندلکوں میں
روحوں کے عفریت کدوں کے زہر اندوز
محلکوں میں
لے آیا ہے یوں بن پوچھے اپنا آپ
عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں
کی چاپ
کون ہے یہ گستاخ
تاخ تڑاخ





بنے یہ زہر ہی وجہِ شفا، جو تو چاہے
خرید لوں میں یہ نکلی دوا، جو تو چاہے

تجھے تو علم ہے کیوں میں نے اس طرح چاہا
جو تو نے یوں نہیں چاہا تو کیا، جو تو چاہے

جب ایک سانس گھسے، ساتھ ایک نوٹ پسے
نظامِ زر کی حسیں آسیا، جو تو چاہے

ذرا شکوہِ دو عالم کے گُنبدوں میں لرز
پھر اس کے بعد تیرا فیصلہ، جو تو چاہے

سلام ان پر، تہِ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تو چاہے

جو تیرے باغ میں مزدوریاں کریں امجد
کھلیں وہ پھول بھی اک مرتبہ، جو تو چاہے


===


دل نے ایک ایک دکھ سہا، تنہا
انجمن انجمن رہا، تنہا

ڈھلتے سایوں میں، تیرے کوچے میں
کوئی گزرا ہے بارہا، تنہا

تیری آہٹ قدم قدم اور میں
اس معیٓت میں بھی رہا، تنہا

کہنہ یادوں کے برف زاروں سے
ایک آنسو بہا، بہا، تنہا

دوبتے ساحلوں کے موڑ پہ دل
اک کھنڈر سا، رہا سہا، تنہا

گونجتا رہ گیا خلاؤں میں
وقت کا ایک قہقہہ، تنہا


===


جنونِ عشق کی رسمِ عجیب کیا کہنا
میں اُن سے دور وہ میرے قریب کیا کہنا

یہ تیرگیء مسلسل میں ایک وقفۂ نور
یہ زندگی کا طلسمِ عجیب کیا کہنا

جو تم ہو برقِ نشیمن تو میں نشیمنِ برق
اُلجھ پڑے ہیں ہماے نصیب کیا کہنا

ہجومِ رنگِ فراواں سہی۔۔ مگر پھر بھی
بہار۔۔ نوحۂ صد عندلیب کیا کہنا

ہزار قافلۂ زندگی کی تیرہ شبی
یہ روشنی سی افق کے قریب، کیا کہنا

لرز گئی تری لَو میرے ڈگمگانے سے
چراغِ گوشۂ کوئےِ حبیب ! کیا کہنا





روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گُلاب کے پھول
حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گُلاب کے پھول

اُفق اُفق پہ زمانوں کی دُھند سے اُبھرے
طُیور، نغمے، ندی،تتلیاں، گلاب کے پھول

کس انہماک سے بیٹھی کشید کرتی ہے
عروسِ گل بہ قباۓ جہاں گلاب کے پھول

یہ میرا دامنِ صد چاک، یہ رداۓ بہار
یہاں شراب کے چھینٹے، وہاں گلاب کے پھول

کسی کا پھول سا چہرہ اور اس پہ رنگ افروز
گندھے ہوئی بہ خمِ گیسواں، گلاب کے پھول

خیالِ یار ! ترے سلسلے نشوں کی رُتیں
جمالِ یار ! تری جھلکیاں گلاب کے پھول

مری نگاہ میں دورِ زماں کی ہر کروٹ
لہو کی لہر، دِلوں کا دھواں، گلاب کے پھول

سلگتے جاتے ہیں چُپ چاپ ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرۂ پیغمبراں گلاب کے پھول

یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں باہیں
چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول

کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول

===================================

Sunday, December 13, 2009

Bano Qudsia

*
*
*
Bano Qudsia , (Punjabi, Urdu: بانو قدسیه) (born 1928) is a writer, intellectual, playwright and spiritualist from Pakistan who is regarded among the best Urdu novelists and short story writers of modern times. She is best known for her novel Raja Gidh. She writes for television and stage in both Urdu and Punjabi languages. She is the wife of famous novelist Ashfaq Ahmed.
Bano Qudsia is recognized as a trendsetter in the realm of television plays. Some of them gained immense popularity across the border because of their vitality, warmth and courage. Strife is one word she would like to banish from the dictionary. She attributes the hostilities raging across the world to the Intolerance and selfishness of the human race.





Life

Bano moved with her family to Lahore during the Partition of India. Her father, a landlord with a Bachelor's degree in agriculture, died when Bano was very young. She attended school in Dharamsala in eastern India before moving to Lahore. Her mother was an educationist, and this inspired the young Bano to develop a keen interest in academics, which turned her into a conscientious student. Her marriage to Ashfaque Ahmad consummated the artist in her, though she says she never discusses any of her works with her husband nor has the writer-spouse ever tried to influence her writings. "We work very independently. Writing a book is like bearing a child and you do not share that with anyone. God is your only confidant. It is also like falling in love. You keep it personal and private."

Education

Bano says she has had a passion for writing for as long as she can remember. As a student, she wrote for college magazines and other journals. Her memories of her days at Kinnaird College in Lahore, from where she graduated, are still quite vivid. She talks of the literary inspiration that was a hallmark at Kinnaird's campuses during those days. Though her stay at Kinnaird went a long way in sharpening her scholarly skills, Bano felt an incessant need to polish her expressions in Urdu, the only language with which she could reach the minds of the people. So in 1951, she completed her M.A. degree in Urdu from the Government College Lahore with distinction.

Works and Honors

Author of innumerable short stories, novelettes, television and radio plays, besides some memorable stage plays, Bano's writings have a strong association with life's vicissitudes.
The strength of conviction in her prose is unmistakable. Her short stories like Baz Gasht, Amar Bail, Doosra Darwaza and Twajju ki Talib, the latter, a stimulating collection of short stories, have mustered a vast readership. Of her novels, none has received as much recognition as Raja Gidh which centers around the forbidden truth. The plot builds around the symbol of a vulture, a bird of prey, that feeds on dead flesh and carcasses. The moral sought implies that indulgence in the forbidden leads to physical and mental degeneration.
Some of her best plays include Tamasil, Hawa key Naam, Seharay and Khaleej. The plight of women and other socio-economic issues have often been the subject of her television serials that have inspired families wherever they have been aired. The Graduate Award for Best Playwright was conferred on Bano in 1986, followed by the same award for three consecutive years from 1988 to 1990. In 1986, she was also given the Taj Award for Best Playwright. Bano can expound endlessly on the myriad aspects of life without risking to bore her audience. Her articulation and diction add to the charm of her discourse.
Rather critical of the deviation of today's woman from her natural role of mother and home keeper, Bano decries what she terms 'a woman's unsolicited and disoriented escape from responsibility.' Interestingly, though, she blames men for plotting a conspiracy to push women out of the house, her only domain. "And women fall easy prey to this trap. Men of the post-industrialization era gave women a taste of luxurious lifestyles and then instigated them to step out of the house and earn that lifestyle. The woman developed a taste for what she thought was freedom for her, but which actually bonded her as a labourer and a breadwinner."
She cites the example of the woman who does the dishes in her home. "This woman is more liberated than your modern women, since she does not suffer from any conflicts of the 'self'. Poverty is all that hurts her and she is not caught in a rat race to prove something to herself or carve out an identity for herself. Her existence is identity enough." Bano also feels that what she calls women's 'strength of softness' has been lost in their struggle to prove themselves equal to men. What women take as their weaknesses are in fact their strengths, she believes.
Bano Qudsia planned to co-author a book with her (now late) husband. Her obligations towards her family are much more important for her than her work. "My husband (now late), my three sons and daughter-in-law have all been very kind to me and have always showered their affections on me. So, how can I ever put anything else before them?"
Having lived a fulfilling life, which Bano ascribes to the benevolence of those around her, she kept herself busy caring for her husband, the writer Ashfaque Ahmad. She is now working on her present literary undertaking - a novel which she plans to title Dastan Serai, after her home. "I formally started work on this novel in 1992. Prior to this, I had worked on it during the 1950s. The novel is set against the backdrop of Partition and revolves around the theme of intention and motivation. It highlights the importance of intention as the key determinant behind every act."

Books

Aatish Zeir Pa
Adhi Baat
Aik Din
Amr Bail
Assey Passey
Bazgasht
Chahar Chaman
Dast Basta
Dosra Darwaza
Dusra Qadam
Foot Path Ki Ghaas
Haasil Ghaat, Read online
Hawwa Key Naam
Kuch Aur Nahi

===================================

بانو قدسیہ

*
*
*
سوال: آپ ہمیں یہ بتائیں کہ کیا بانو قدسیہ شروع ہی سے بانو قدسیہ ہی تھیں؟
بانو قدسیہ: (ب ق) جی نہیں ہرگز نہیں۔ میں جب کالج میں پڑھتی تھی، اشفاق صاحب کے ساتھ، تو مجھ سے روز کہا کرتے تھے کہ ادیب بننا ہے تو نام میں ادبیت ضرور ہونی چاہیے، میں نے اپنے نام کے ساتھ سے ’خان‘ ہٹا دیا ہے تم اپنے نام کے ساتھ سے، تب میں قدسیہ بانو چٹھہ تھی، تو انہوں نے کہا کہ میں بھی اپنا خان ہٹاتا ہوں تم بھی ذات ہٹاؤ، میں تمہارا نام بانو قدسیہ کرتا ہوں۔ تو یہ نام مجھے ان کا دیا ہوا ہے اشفاق صاحب کا۔

سوال: تو بانو قدسیہ کب پیدا ہوئی، کہاں پیدا ہوئی؟

ب ق: جی میں، مشرقی پنجاب میں، فیروزپور میں اٹھائیس نومبر میں انیس سو اٹھائیس کو پیدا ہوئی۔ پھر پڑھائیوں کے سلسلے میں دائیں بائیں پھرتے رہے، اور یہاں پر آئی تو سنہ سینتالیس تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں، جب پاکستان بنا ہے اسی سال میں نے بی اے کیا۔ آپ یقین کریں جو ایکسپئرینسز (تجربات) ہمیں پاکستان کے قیام کے وقت ہوئے ہیں، وہ آپ لوگوں کو سمجھ میں بھی نہیں آ سکتے۔ آپ لوگ چھوٹے ہیں۔ آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان کیا چیز تھی اور کیا بنا ہے۔ جب کالج میں ہم امتحان دے رہے تھے تو یک دم آگ لگ گئی۔ پھر کنیرڈ کالج سے اٹھا کر لڑکیوں کو ڈالا گیا بس میں اور ایف سی کالج لے کر گئے اور ہم نے وہاں امتحان کا پرچہ دیا۔ رستے میں بھی اندیشہ تھا کہ لڑکیاں اغواء نہ کر لی جائیں۔ اتنا اندیشہ تھا تو ان حالات میں ہم نے امتحان کیا۔ پھر پاکستان بنا۔ پھر آپ جانتے نہیں جیسے اشفاق صاحب ہمیشہ کہتے رہتے تھے، کہتے چلے گئے ہیں: پاکستان جو ہے یاد رکھیے، یاد رکھیے، پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو عزتِ نفس حاصل ہو۔ پاکستان کا سلوگن (نعرہ) روٹی کپڑا اور مکان نہیں ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان جو ہے وہ تو اوپر والا دیتا ہے۔ آپ یقین کریں روٹی کپڑا اور مکان انسان دے نہیں سکتا کسی کو۔ آپ دعویٰ کر لیجئیے، دے کر دکھائیے کسی کو، اگر آپ کو اپنے بچوں کو بھی روٹی کپڑا اور مکان دینا پڑے تو آپ دے نہیں سکیں گے۔ مجبوریاں درپیش ہو جائیں گی، کوئی وجہ ہو جائے گی، نوکری چھوٹ جائے گی، کچھ ہو جائے گا۔ لیکن عزت نفس، شیریں کلامی، کسی کے ساتھ اچھا سخن کرنا، یہی ہم کسی کو دے سکتے ہیں۔

سوال: بانو قدسیہ کا ابتدائی بچپن، شروع کا کہاں گزرا، کیسا گزرا؟

ب ق: جب میں ساڑھے تین برس کی تھی تو میرے والد فوت ہو گئے تھے۔ تو میری والدہ نے مجھے سنگل ہینڈڈلی (اکیلے) پالا۔ وہ اس وقت جالندھر میں ہیڈ مسٹرس تھیں۔ جب میں نے پڑھنا شروع کیا۔ اس سے پہلے کی تو یادداشتیں بھی موجود نہیں ہیں۔ لیکن جب میں نے تختی لکھنا سیکھی تو ہم جالندھر میں رہتے تھے۔ عمران خان کی خالہ تھیں جنہوں نے مجھے تختی لکھنا سکھایا۔ عمران خان کو تو آپ جانتے ہی ہیں (پاکستان کے مشہور کرکٹر اور اب سیاست دان) تو ان کی خالہ نے مجھے تختی لکھنا سکھایا، پڑھنا لکھنا سکھایا اور میرے نانا نے میری تربیت کی اور مجھے لکھنا پڑھنا سکھایا۔ اور ان کی ایک ہی ڈیمانڈ (تقاضا) ہوتی تھی: بیٹی شکستہ لکھو۔ مرد کی طرح لکھو عورتوں کی طرح گول گول نہ لکھو۔ تو آپ دیکھیں کے میری اور اشفاق صاحب کی لکھائی میں اتنا کم فرق ہے کہ اگر میں اشفاق صاحب کا سکرپٹ دے دوں یا اپنا سکرپٹ دے دوں تو کوئی پہچان نہیں سکے گا۔

سوال: کبھی اتنا کچھ لکھنے کے بعد یا لکھنے کے دوران یہ خیال آیا کہ آپ لکھتی کیوں ہیں ہیں یا اس کی ضرورت کی ۔ ۔ ۔

ب ق: تحریک اس کی کیا ہے؟ تو میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ کیا کسی پھول کو معلوم ہوا ہے کہ وہ کھلتا کیوں ہے؟ کسی پھل کو پتہ چلا ہے کہ وہ کیوں پکتا ہے؟ اور کیوں اس میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے؟ تخلیقی کاموں کا جس بندے کو علم ہو گیا کہ وہ کیوں لکھتا ہے تو میرے خیال میں وہ مشقت سے لکھتا ہے اور اس کا نام ہسٹری میں آ نہیں سکتا۔





سوال: کیسے محسوس ہوتا ہے جب ایک کہانی ۔ ۔ ۔

ب ق: وہ کہانی وارد ہو جاتی ہے۔ اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیسے آتی ہے۔ وہ چلتے چلتے وارد ہو جاتی ہے۔

سوال: اور پھر آپ اس پر۔ ۔ ۔

ب ق: وہ خود ہی پکڑی جاتی ہے۔ خود ہی ذہن اسے پکڑ لیتا ہے اور خود ہی اس پر کام کرنے لگ جاتا ہے۔ جس طرح غزل نازل ہوتی ہے، آمد سے بھی زیادہ، میں کہتی ہوں نازل ہوتی ہے، تو پتہ تو نہیں ہوتا کہ کیسے شعر اتریں گے اور کیسے بن جائیں گے۔ بن جاتی ہے تو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو پوری غزل ہی ہو گئی۔

سوال: اور ناول، تو کیا ناول میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے؟

ب ق: دیکھیے میں آپ کو دوسرے ناولوں کی بات تو بعد میں بتاؤں گی، میں ’راجہ گدھ‘ کے متعلق آپ کو بتا سکتی ہوں۔ آج وہ سترہ اٹھارہ سال سے سی ایس ایس کے امتحان میں لگا ہوا ہے۔ ڈاکٹر اجمل آپ کو یاد ہوگا، نفسیات دان تھے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل بھی رہے ہیں۔ انہوں نے اسے مقابلہ کے اس امتحان میں لگایا تھا۔ میں یہاں پر بیٹھی تھی اور میرا کوئی ارداہ نہیں تھا کہ میں کوئی ایسا ناول لکھوں گی۔ ’راجہ گدھ‘ کی طرح کا، ان دنوں ہمارے گھر میں ایک امریکن لڑکا ٹھہرا ہوا تھا۔ وہ بہت کوشش کرتا تھا کہ امریکن تہذیب، امریکن زندگی، امریکن اندازِ زیست سب کے بارے میں یہ ثابت کرے کہ وہ ہم سے بہتر ہے۔ مسلمانوں سے بہتر ہے۔ تو ایک روز وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا: اچھا مجھے دو لفظوں میں، ایک جملے میں بتائیے، آپ صرف چھوٹی سی بات مجھ سے کیجیے کے اسلام کا ایسنس (جوہر) کیا ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ آپ یہ بتائیے کہ عیسائیت کا ایسنس کیا ہے؟ اس نے کہا: عیسائیت کا ایسنسن ہے Love - "Love thy neighbour as thyself" یہ ایسنسن ہے عیسائیت کا۔ میں نے کہا اسلام کا جو ایسنس ہے وہ اخوت ہے، برابری ہے، بھائی چارہ ہے brotherhood ہے۔ کہنے لگا چھوڑیے یہ کس مذہب نے نہیں بتایا کہ برابری ہونی چاہیے۔ یہ تو کوئی ایسنس نہیں ہے یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا۔ یقین کیجیے، یہاں پر پہلے ایک بہت بڑا درخت ہوتا تھا سندری کا درخت۔ سندری کا درخت ہوتا ہے جس سے سارنگی بنتی ہے۔ اس کے بڑے بڑے پتے تھے اور وہ یہاں لان کے عین وسط میں لگا ہوا تھا۔ وہ ایک دم سفید ہو گیا اور اس پر مجھے یوں لگا جیسے لکھا ہوا آیا ہو: اسلام کا ایسنس حرام و حلال ہے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اسے میں نے کیوں کہا۔ کیونکہ اس ہر ایکشن (عمل) سے دو چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ جتنے کمانڈمنٹس ہیں یا تو وہ حرام ہیں یا حلال ہیں۔حلال سے آپ کی فلاح پیدا ہوتی ہے اور حرام سے آپ کے بیچ میں تشنج پیدا ہوتا ہے۔ آپ میں ڈپریشن پیدا ہوتا ہے آپ میں بہت کچھ پیدا ہوتا ہے۔ میں نے اس امریکی لڑکے کو بلایا اور اسے کہا: یاد رکھنا اسلام حرام و حلال کی تمیز دیتا ہے اور یہی اس کا ایسنس ہے۔ اس کےبعد میں نے یہ کتاب لکھی اور میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ کس طرح اللہ نے میری رہنمائی کی اور میری مدد فرمائی اور مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ کتاب میں نے نہیں لکھی مجھ سے کسی نے لکھوائی ہے۔ اس کے بعد آپ کو پتہ کہ میری بہت ساری کتابیں ہیں۔ پچیس کے قریب کتابیں میری ہو چکی ہیں۔ اور جتنا بھی اس پر کام ہوا ہے میں آپ کو بتا ہی نہیں سکتی کہ کس طرح ہوا ہے۔


سوال: کوئی یاد ہے، اس کی کہانی، اس کی تحریک؟

ب ق: دیکھیے، اس کی کہانی عجیب و غریب ہے کہ ایک آدمی بچہ چرا کر لے جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کا ضمیر کیسے پلٹتا ہے اور کیسے وہ بچہ واپس لا کر دیتا ہے۔ جب وہ بچہ اٹھاتا ہے تو کہتا ہے: something is better than nothing)) کہ یہاں سے مجھے پیسہ تو نہیں ملا بچہ مل گیا ہے، اسے یرغمال کے طور پر استعمال کروں گا لیکن بعد میں اس کا ضمیر اس کو اتنی ملامت کرتا ہے کہ وہ بچہ واپس کر دیتا ہے۔ آج بھی میں اس تھیم پر اچھا ڈرامہ نہیں لکھ سکتی۔ پتہ نہیں کب دماغ کیسے چلا۔ اسے لڑکیوں نے بہت اچھا کیا اور ہمیں انعام ملا۔

سوال: تو یہ پہلی کہانی تھی جسے آپ نے ڈراما بنایا؟

ب ق: نہیں کہانی نہیں تھی، سیدھا ڈرامہ ہی بنایا۔

سوال: پھر کبھی کہانی کی شکل میں نہیں لکھا آپ نے اسے یا اسے محفوظ رکھا؟

ب ق: بس میں نے، نہیں آٹھویں کا سکرپٹ کون محفوظ رکھتا ہے۔ پھر میں کرتی گئی، کرتی گئی اور بی اے کے بعد ایم اے میں جب آئی ہوں تو میں ایک ناول لکھ رہی تھی۔ کہانیاں لکھ رہی تھی لیکن کوئی سورس نہیں تھا کہ میں انہیں کہاں بھجواؤں کیا کروں، کس طرح کروں؟ ایم اے میں جب پہلے سال میں ہم داخل ہوئے تو، جیسے کہ میں آپ کو پہلے بتایا ہے کہ ہمارے پروفیسر سرداری لعل صاحب نے کہا تھا کہ تم ایم اے میتھیمیٹکس میں کر لو، تو آدھے راستے میں، میں یہ ارادہ کر کے گئی تھی کہ میں اپنے پروفیسر کی بات مانوں گی لیکن جب میں وہاں پہنچی تو یک دم ارادہ بدل دیا، مجھے پتہ چلا کہ پہلا سیشن اردو کا شروع ہو گیا ہے۔ مجھے باہر لوگوں سے پتہ چلا کہ یہاں ایم اردو کی بھی تیاری ہو گئی ہے۔ میں نے کہا کہ میرے لکھنے میں یہ چیز کام آئے گی۔ میں کچھ اردو سیکھ لوں گی تو پھر میں نے وہاں پرنسپل پروفیسر سراج، جو انگریزی کے پروفیسر تھے، ان سے کہا کہ جی میں اردو میں ایم اے کرنا چاہتی ہوں۔ غالباً اڑتالیس کی بات ہے۔ تو انہوں نے مجھ سے کہا: بیٹا تمہاری کوئی اردو کی بیک گراؤنڈ ہے پڑھنے لکھنے کی؟ تو میں ان سے کہا جی میں صرف ایک ہی کتاب پڑھی ہے، پنڈت رتن ناتھ سرشار کی، اور وہ ہے ’فسانۂ آزاد‘۔ تو انہوں نے کہا کہ تمہیں اتنی ہی اردو آتی ہے؟ تو میں نے کہا کہ جی میں اسی پر ہی کام کروں گی۔ میں تھیسس بھی اسی پر لکھوں گی اور کام بھی اسی پر کروں گی۔ آپ مجھے اجازت دے دیجیے۔ پھر میں فیل ہو گئی تو آپ مجھے ففتھ ائر میں نکال دیجیے گا۔ تو انہوں نے کہا چلو، "you are seem to be quite madeup your mind" تو تمہیں داخلہ دیتے ہیں۔ تو ہم پانچ چھ سٹوڈنٹ تھے۔ تو آپ یقین کریں کہ جب میں نے ففتھ ائر پاس کیا، تو اشفاق صاحب جو ایک کتاب کے مصنف تھے اس وقت بھی، وہ سیکنڈ آئے اور میں فرسٹ آ گئی۔ جس سے اشفاق صاحب کو پرخاش چڑھی۔ انہوں نے کہا یہ ہوتی کون ہے، میں صاحبِ کتاب ہوں اور یہ فرسٹ آ گئی اور میں سیکنڈ آ گیا تو پھر انہوں نے مجھ میں دلچسپی لینا شروع کی۔ پھر ان کو پتہ چلا کہ یہ بھی لکھتی ہے۔ تو انہوں نے میری مدد کی اور پھر انہوں نے میرا پہلا افسانہ ’ادبِ لطیف‘ میں چھاپا جس کا نام تھا ’واماندگیِ شوق‘۔


سوال: عورتوں کی لکھائی گول گول اور مردوں کی لکھائی شکستہ؟

ب ق: شکستہ۔ مرد کو ہمیشہ ٹرینگ (تربیت) ہوتی ہے کہ شکستہ لکھے۔ وہ شروع ہی سے شکستہ لکھتے ہیں اور عورتیں بنا بنا کر نون بھی بناتی ہیں، میم بھی بناتی ہیں، الف بھی بناتی ہیں اس سے لکھائی گول گول ہو جاتی ہے۔ جو شکستہ لکھنے والا ہے وہ تیز تیز لکھتا ہے اور بہت لکھتا ہے۔

سوال: بچپن؟

ب ق: جی، بچپن کیا گزرنا ہے، والد فوت ہو چکے تھے۔ تو ایک طرح کی پژمردگی ان گھروں میں ضرور ہوتی ہے جن میں والد نہ ہوں۔ آپ کو میں بتاتی ہوں خاص طور پر لڑکیوں میں یہ کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا۔ میرا جو اشفاق صاحب سے شغف ہے یا میں جو کہتی ہیں کہ میں ان کی مریدی میں ہوں، ان کی محبت میں مبتلا ہوں۔ تو یہ وجہ ہے کہ اشفاق صاحب نے میرے والد کی جگہ لی۔ انہوں نے میری ویسے ہی پرورش کی جیسے کوئی والد کر سکتا تھا۔





سوال: تو اس کے بعد؟
ب ق: جی اس کے بعد میری والدہ دھرم شالے چلی گئیں۔ تو وہاں میرا بچپن گزرا۔ دھرم سالا پہاڑ ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کانگڑا ویلی (وادی) میں۔ وہاں ہم بہت سال رہے۔ اس کے بعد میں اسلامیہ کالج (لاہور) آ گئی کیونکہ میں نے ایف اے کرنا تھا۔ وہاں سے ایف اے کیا اس کے بعد بی اے کنیرڈ کالج سے کیا اور ایم اے میں نے گورنمنٹ کالج سے کیا۔

سوال: اشفاق صاحب سے کہاں ملاقات ہوئی؟

ب ق: گورنمنٹ کالج میں ملاقات ہوئی۔ ففٹی (انیس سو پچاس) میں ہم دونوں نے ایم اے کیا ہے، اس سے دو سال پہلے۔ فورٹی ایٹ میں، میں گئی ہوں۔ اب تاریخیں بھی یاد نہیں رہتی ہیں کوئی گھپلا ہو جائے تو معاف کر دیجیے گا۔ لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سنہ پچاس میں، میں نے ایم اے کیا۔ میں بہت ینگ (نوجوان) تھی اس وقت، میرے خیال میں اٹھارہ انیس برس کی، میں ینگسٹ (سب سے کم عمر) سٹوڈنٹ تھی۔ تو ہمارے پروفیسر تھے، میرے خیال میں پروفیسر سراج الدین ان دنوں پرنسپل تھے۔ تو مجھے اردو کی کوئی عقل نہیں تھی۔ وہی گول گول لکھنے والا قصہ تھا۔ پڑھنا بھی مجھے نہیں آتا تھا کیونکہ میں نے کانونٹ سے تعلیم حاصل کی تھی تو کانونٹ ہی، اور پھر کنیرڈ کالج، تو آپ کو پتہ ہے کہ کنیرڈ کالج کیا اردو سکھائے گا۔ وہاں ہمارے پروفیسر تھے، پروفیسر سرداری لعل مجھ سے کہا کرتے تھے: بیٹی تم میتھیمیٹکس میں ماسٹر کر لو تمہارا دماغ اچھا ہے، تم میتھیمیٹکس میں اچھی رہو گی۔ وہ بڑی لگن سے پڑھاتے تھے۔ میں نے ایک سبجیکٹ بی اے میں میتھیمیٹکس لے رکھا تھا اور ایک اکنامکس لے رکھی تھی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ مجھے اردو پڑھنے لکھنے کا شوق بہت تھا۔ کہانیاں لکھنے کا۔ کہانیاں میں تب بھی لکھتی تھی۔ پانچویں جماعت سے میں لکھتی آ رہی ہوں۔ بلکہ میں آٹھویں جماعت میں تھی تو انٹر ڈریمٹک سوسائٹی کا سارے پنجاب کا ڈرامہ ہوا۔ کتنے ہوں گے تب سکول؟ نالائق سے تھے لیکن وہ انٹر سکول ڈرامے تھے۔ تو میں آٹھویں میں تھی جب میں نے اپنے سکول کے لیے ڈرامہ لکھا تھا اور وہ فرسٹ آیا تھا۔

سوال: یہ کون سا سکول تھا؟

ب ق: یہ دھرم سالے میں گورنمنٹ کا سکول تھا۔


سوال: ٹھیک ہے، بنیادی خیال تو آپ کو آ گیا لیکن پھر اس کا تانا بانا ۔ ۔ ۔

ب ق: جی میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ کس طرح میری رہنمائی ہوئی ہے، جس طرح شاعر نہیں بتا سکتا کہ غزل کس طرح لکھی گئی، اس طرح میں آپ کو نہیں بتا سکتی۔

سوال: تو کیا ایک ہی سکرپٹ میں کہانی مکمل کرتی ہیں؟

ب ق: جی نہیں راجہ گدھ تو بہت برسوں میں لکھا گیا۔

سوال میرا مطلب ہے کہ جب آپ ایک بار لکھ لیتے ہیں تو پھر اسے دیکھتے ہیں، اسے لکھتے ہیں؟

ب ق: جی کئی بار ایسے بھی ہوا ہے۔ کئی بار دوبارہ بھی لکھنا پڑتا ہے۔ میں تو بہت غلطیاں کرنے والی عورت ہوں۔ کئی بار میں چیز کو لکھ کر دوبارہ دہراتی بھی ضرور ہوں۔ لیکن اشفاق صاحب کا لکھا ہوا، وہ ایک ہی بار لکھا کرتے تھے۔ پھر وہی مجھے راغب کر کے ٹیلی ویژن پر لے گئے۔ پہلے ریڈیو پر لے گئے اور پھر ٹیلی ویژن پر۔

سوال: لیکن ٹیلی ویژن والے تو خاص تقاضے کرتے ہیں؟

ب ق: نہیں جی میرا ان کے ساتھ، اشفاق صاحب کا اور میرا، اب میرے بیٹے انیق احمد کا جو لکھتے ہیں اب، وہ آج کل یہاں نہیں ہیں۔ امریکہ میں ہیں۔ لیکن وہ یہاں دو ایک سیریز لکھ کر جا چکے ہیں۔ ہمارا ایک ہی ہوتا ہے کہ اگر تبدیلی چاہتے ہیں تو کسی تبدیلی والے لکھنے والے سے لکھوا لیجیے۔ اشفاق صاحب نے مجھے شروع ہی سے کہا تھا کسی سکرپٹ کو کسی کے لیے تبدیل نہیں کرنا۔ اگر آپ کی کنوکشن ہے تو آپ اسے لکھیں اور اگر آپ کی کنوکشن نہیں تو آپ اسے نہ لکھیں۔ تو کنوکشن کی چیزیں بدلی نہیں جا سکتیں۔ (میں اب آپ کو زیادہ وقت نہیں دے سکوں گی، اذان کا وقت ہو رہا ہے، میں معافی چاہتی ہوں)

سوال: نہیں ٹھیک ہے۔ آج کل آپ اپنا صبح سے شام کا دن کس طرح گزارتی ہیں؟

ب ق: یہ آپ نے اچھا سوال نہیں کیا، میں آپ کو بتاتی ہوں کے میں اس رابطے کو بھولنے کی کوشش میں لگی رہتی ہوں، جو میرا اشفاق صاحب سے تھا۔ اس سہارے کو میں تلاش نہیں کرنا چاہتی۔ بچن میں میرا باپ مجھ سے چھنا، اب دوبارہ چھن گیا ہے۔ اب میں اس رنج سے اور اس غم سے عہدہ براہ ہونے کی کوشش میں لگی رہتی ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ عام چیزوں میں عام باتوں میں دلچسپی لوں۔ شاید مجھے بھول جائے کہ میں کہاں تھی اور کہاں آ گئی۔

سوال: باہر آنا جانا، گھر کے کام کاج؟

ب ق: گھر کے کام کاج تو وہ بلی ہے جو گلے کو پکڑ لیتی ہے۔ اسے تو آپ چھوڑ ہی دیجیے۔ بس کوشش ہوتی ہے کہ اشفاق صاحب کی روایت پر چلنے کی۔

بانوقدسیہ کے ناول، کہانیوں کے مجموعے اور دیگر کتابیں

٭ راجہ گدھ ٭ شہر بےمثال ٭ توجہ کا طالب
٭ چہار چمن ٭ سدھراں ٭ آسے پاسے
٭ دوسرا قدم ٭ آدھی بات ٭ دست بستہ
٭ حوا کے نام ٭ سورج مکھی ٭ پیا نام کا دیا
٭ آتش زیر پا ٭ امر بیل ٭ بازگشت
٭ مردابریشم ٭ سامان وجود ٭ ایک دن
٭ پروا ٭ موم کی گلیاں ٭ لگن اپنی اپنی
٭ تماثیل ٭ فٹ پاتھ کی گھاس ٭ دوسرا دروازہ
٭ ناقابل ذکر ٭ کچھ اور نہیں ٭ حاصل گھاٹ

بشکریہ ''اردو لکھاری'')






بي بي رو رو کر ہلکان ہو رہي تھي۔ آنسو بے روک ٹوک گالوں پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ مجھے کوئي خوشي راس نہیں آتي ۔ ميرا نصيب ہي ايسا ہے۔ جو خوشي ملتي ہے ايسي ملتي ہے گويا کوکا کولا کي بوتل میں ريت ملا دي ہو کسي نے۔
آنکھيں سرخ ساٹن کي طرح چمک رہي تھيں اور سانسوں ميں دمے کے اکھڑے پن کي سي کيفيت تھي۔ پاس ہي پپو بيٹھا کھانس رہا تھا۔ کالي کھانسي نامراد کا ہلا جب بھي ہوتا بيچارے کا منہ کھانس کھانس کر بينگن سا ہو جاتا ۔ منہ سے رال بہنے لگتا اور ہاتھ پاؤں اينٹھ سے جاتے۔ امي سامنے چپ چاپ کھڑکي ميں بيٹھي ان دنوں کو ياد کر رہي تھيں جب وہ ايک ڈي سي کي بيوي تھيں اور ضلع کے تمام افسروں کي بيوياں ان کي خوشامد کيا کرتي تھيں۔ وہ بڑي بڑي تقريبوں ميں مہمان خصوصي ہوا کرتيں، اور لوگ ان سے درخت لگواتے ربن کٹواتے ۔۔انعامات تقسيم کرواتے۔
پروفيسر صاحب ہر تيسرے مندھم سي آواز ميں پوچھتے ۔ ليکن آخر بات کيا ہے بي بي ۔ کيا ہوا ہے۔ وہ پروفيسر صاحب کو کيا بتاتي کہ دوسروں کے اصول اپنانے سے اپنے اصول بدل نہیں جاتے صرف ان پر غلاف بدل جاتا ہے۔ ستار کا غلاف ، مشين کا غلاف ، تکيے کا غلاف۔۔درخت کو ہميشہ جڑوں کي ضرورت ہوتي ہے۔ اگر اسے کرسمس ٹري کي طرح يونہي داب داب کر مٹي میں کھڑا کر ديں گے تو کتنے دن کھڑا رہے گا۔ بالاخر تو گرے ہي گا۔ وہ اپنے پروفيسر مياں کو کيا بتاتي کہ اس گھر سے رسہ تڑوا کر جب وہ بانو بازار پہنچي تھي اور جس وقت وہ ربڑ کي ہوائي چپلوں کا بھاؤ چار آنے کم کروا رہي تھي تو کيا ہوا تھا؟۔
اس کے بوائي پھٹے پاؤں ٹوٹي چپلي میں تھے۔ ہاتھوں کے ناخنوں ميں برتن مانجھ مانجھ کر کيچ جمي ہوئي تھي۔ سانس میں پياز کے باسي لچھوں کي بو تھي۔ قميض کے بٹن ٹوٹے ہوئےا ور دوپٹے کي ليس ادھڑي ہوئي تھي۔ اس ماندے حال جب وہ بانو بازار کے ناکے پر کھڑي تھي تو کيا ہوا تھا؟۔ يون تو دن چڑھتے ہي روز کچھ نہ کچھ ہوتا ہي رہتا تھا پر آج کا دن بھي خوب رہا۔ ادھر پھچلي بات بھولتي تھي ادھر نيا تھپڑ لگتا تھا۔ ادھر تھپڑ کي ٹيس کم ہوتي تھي۔ ادھر کوئي چٹکي کاٹ ليتا تھا۔ جو کچھ بانو بازار ميں ہوا وہ تو فقط فل اسٹاپ کے طو رپر تھا۔
صبح سويرے ہي سنتو جمعدارني نے بر آمدے میں گھستے ہي کام کرنے سے انکار کر ديا۔ رانڈ سے اتنا ہي تو کہا تھا کہ نالياں صاف نہیں ہوتيں ۔ ذرا دھيان سے کام کيا کر ۔ بس جھاڑو وہيں پٹخ کر بولي ۔ ميرا حساب کر ديں جي۔۔ کتني خدمتيں کي تھيں بد بخت کي۔ صبح سويرے تام چيني کے مگ میں ايک رس کے ساتھ چائے۔ رات کے جھوتے چاول اور باسي سالن روز کا بندھا ہوا تھا۔ چھ مہينے کي نوکري میں تين نائلون جالي کے دوپٹے ۔ امي کے پرانے سليپر اور پروفيسر صاحب کي قميض لے گئي تھي۔ کسي کو جرات نہ تھي کہ اسے جمعدارني کہہ کر بلا ليتا۔ سب کا سنتو سنتو کہتے منہ سوکھتا تھا۔ پر وہ تو طوطے کي سگي پھوپھي تھي۔ ايسي سفيد چشم واقع ہوئي کہ فورا حساب کر، جھاڑو بغل می داب ، سر پر سلپفحي دھر۔ يہ جا وہ جا۔ بي بي کا خيال تھا کہ تھوڑي دير میں آکر پاؤں پکڑے گي۔ معافي مانگے کي اور ساري عمر کي غلامي کاعہد کرے گي۔ بھلا ايسا گھر اسے کہاں ملے گا۔ پر وہ تو ايسي دفان ہوئي کہ دوپہر کا کھانا پک کر تيار ہو گيا پر سنتو مہاراني نہ لوٹي۔
سارے گھر کي صفائيوں کے علاوہ غسلخانے بھي دھونے پڑے اور کمروں میں ٹاکي بھي پھيرني پڑي۔ ابھي کمر سيدھي کرنے کو ليٹي ہي تھي کہ ايک مہمان بي بي آگئيں۔ منے کي آنکھ مشکل سے لگي تھي۔ مہمان بي بي حسن اتفاق سے ذرا اونچا بولتي تھيں ۔ منا اٹھ بيٹھا اور اٹھتے ہي کھانسنے لگا۔ کالي کھانسي کا بھي ہر علاج کر ديکھا تھا پر نہ تو ہوميو پيتھيک سے آرام آيا نہ ڈاکٹري علاج سے۔ حکيموں کے کشتے اور معجون بھي رائيگاں گئے۔ بس ايک علاج رہ گيا تھا اور يہ علاج سنتو جمعدارني بتايا کرتي تھي۔ بي بي کسي کالے گھوڑے والے سے پوچھو کہ منے کو کيا کھلائيں۔ جو کہے سو کھلاؤ ۔ دنو ں ميں آرام آجائے گا۔
ليکن بات تو مہمان بي بي کي ہو رہي تھي۔ ان کے آنے سے سارے گھر والے اپنے اپنے کمروں سے نکل آئے اور گرميوں کي دوپہر میں خورشيد کو ايک عدد بوتل لينے کے لئے بھگا ديا گيا۔ ساتھ ہي اتنا سارا سودا اور بھي ياد آگيا کہ پورے پانچ روپے دينے پڑے۔ خورشيد پورے تين سال سے اس گھر میں ملازم تھي۔ جب آئي تھي تو بغير دوپٹے کے کھوکھے تک چلي جاتي تھي اور اب وہ بالوں ميں پلاسٹک کے کلپ لگانے لگي تھي۔ چوري چوري پيروں کو کيو ٹيکس اور منے کو پاؤڈر لگانے کے بعد اپنے چہرے پر بے بي پاؤڈر استعمال کرنے لگي تھي۔ جب خورشيد موٹي ململ کا دوپٹہ اوڑھ کر ہاتھ میں خالي سکوائش کي بوتل لے کر سراج کے کھوکھے پر پہنچي تو سڑکيں بے آبد سي ہو رہي تھيں۔ پانچ روپے کا نوٹ جو اس کے ہاتھ میں پتي سي بن گيا تھا نقدي والے ٹين کي ٹرے ميں دھرتي ہوئي خورشيد بولي۔ايک بوتل مٹي کا تيل لا دو۔۔ دو سات سو سات کے صابن۔ تين پان سادہ۔۔ چار ميٹھے۔۔۔ايک نلکي سفيد دھاگے کي۔ دو لولي پاپ اور ايک بوتل ٹھنڈي ٹھار سيون اپ کي۔
روڑي کوٹنے والا انجن بھي جا چکا تھا اور کولتار کے دو تين خالي ڈرم تازہ کوٹي ہوئ سڑک پر اوندھے پڑے تھے ۔ سڑک پر سے حدت کي وجہ سے بھاپ سي اٹھتي نطر آتي تھي۔ دائي کي لڑکي خورشيد کو ديکھ کر سراج کو اپنا گاؤں دھلا يا د آگيا۔ دھلے میں اسي وضع قطع، اسي چال کي سيندوري سے رنگ کي نو بالغ لڑکي حکيم صاحب کي ہوا کرتي تھي۔ ٹانسے کا برقعہ پہنتي تھي۔ انگريزي صابن سے منہ دھوتي تھي اور شايد خميرہ گاؤ زبان اور کشتہ مردا ريد بمعہ شربت صندل کے اتني مقدار میں پي چکي تھي کہ جہاں سے گزر جاتي سيب کے مربے کي خوشبو آنے لگتي ۔گاؤں ميں کسي کے گھر کوئي بيمار پڑ جاتا تو سراج اس خيال سے اس کي بيمار پرسي کرنے ضرور جاتا کہ شايد وہ اسے حکيم صاحب کے پاس دوا لينے کے لئے بھيج دے۔ جب کبھي ماں کے پيٹ میں درد اٹھتا تو سراج کو بہت خوشي ہوتي۔

اقتباس ''توبہ شکن


===================================

Ahmad Faraz

*
*
*



Ahmed Faraz (January 12, 1931 in Nowshera - Pakistan) is considered one of the greatest modern Urdu poets of the last century and greatest living Urdu poet of present times. Faraz is his 'takhallus', whereas his real name is Syed Ahmed Shah.

Faraz, who has been compared with Mohammad Iqbal and Faiz Ahmed Faiz, holds a unique position as one of the best poets of current times, with a fine but simplistic style of writing, even common people can easily understand and identify with. Ethnically a Pashto-speaking Pashtun, Ahmed Faraz learned and studied Persian and Urdu at the Peshawar University where he taught these subjects later.

In an interview with Rediff he recalls how his father, a teacher, once bought clothes for him on Eid. He didn't like the clothes meant for him, but preferred the ones meant for his elder brother. This lead him to write his first couplet:

Layen hain sab ke liye kapde sale se
(He brought clothes for everybody from the sale)
Layen hain hamare liye kambal jail se
(For me he brought a blanket from jail)
He was told by his parents once to learn mathematics from a female class fellow during the summer vacation. "I was weak in mathematics and geography. I still don't remember maps and roads".





Instead of learning mathematics he played bait-bazi with her, a game in which one person recites a couplet and the other one recites another couplet starting from the last letter of the previous one. He always lost, even though he memorized hundreds of couplets for her, but when he started manufacturing his own couplets she couldn't catch him anymore. Coming from a respectable family of Syeds, descendents of ''Haji Bahadar" a famous saint of Kohat, he moved to Peshawar with entire family. Studied in famous Edwards College Peshawar and then did his Masters in Urdu and Persian. Initially Syed Ahmad Shah Faraz thus became Ahmed Faraz.

During his college time, Faiz Ahmed Faiz and Ali Sardar Jafri were the best progressive poets, who impressed him and became his role models. He initially worked as a script writer at radio Pakistan Peshawar and then moved on to teach Urdu at Peshawar University. In 1976 he became the founding Director General (Later Chairman) of Academy of Letters.

Outspoken about politics, he went into self-imposed exile during the Zia-ul-Haq era after he was arrested for reciting certain poems at a mushaira criticizing the military rule. He stayed for three years in Britain, Canada and Europe before returning to Pakistan, where he was initially appointed Chairman Academy of Letters and later chairperson of the Islamabad-based National Book Foundation for several years. He has been awarded with numerous national and international awards.

He was awarded the Hilal-e-Imtiaz in 2004, in recognition of his literary achievements. He returned the award in 2006 after becoming disenchanted with the government and its policies.


"My conscious will not forgive me if I remained a silent spectator of the sad happenings around us. The least I can do is to let the dictatorship know where it stands in the eyes of the concerned citizens whose fundamental rights have been usurped. I am doing this by returning the Hilal-e-Imtiaz (civil) forthwith and refuse to associate myself in any way with the regime..." a statement issued by the poet.





One amongst his great ghazals is the famous Ranjish Hi Sahi. He has so far written 13 books and all put together comes as "Shehr e Sukhn aarasta hai" his latest publication so far.



Ay Khuda jo bhi mujhay pand-e-shakibie dey
os ki aankhoun ko meray zakham ki gahrie dey

teray logoun se gella hai meray aienoun ko
un ko pathar neigh deata hai to benaie dey

jis ki emma per kia tarkay taalaq mein ne
ab wohie shakas mujeh taanay tanhie dey

ye dahan zakham ki surat hai meray chahray per
ya meray zakham ko bhar ya mujeh goyaie dey

itna bay serfa na jay meray ghar ka jalna
chahsam-e-garyian na sahie chahsam-e-tamashie dey

kia khaber tujeh ko kis andaz ka bismal hai Faraz
woh to qatil ko bhi andaz-e-masehaie dey



khuwab martay nahin


khuwab dil hain naa aankhain naa sansain keh jo
raizaa raizaa hoye tou bikhar jain gay
jism ki maut say yeh bhi mar jain gay

khuwab martay nahin.........
khuwab tou roshni hain,nawaa hain,hawaa hain
jo kalay paharoon say........ ruktay nahin
zulm kay dozakhoon say bhi thaktay nahin

roshni aur nawaa aur hawaa kay alam
maqtaloon main pohanch kar bhi jhuktay nahin
khuwab tou............ hurf hain
khuwab tou............noor hain

khuwab........... Suqraat hain
khuwab.......... Mansoor hain

nasiib phir ko_ii taqriib-e-qarb ho ke na ho
jo dil me.n ho.n vahii baate.n kiyaa karo us se

'Faraz' tark-e-ta'alluq to Khair kyaa hogaa
yahii bahut hai ke kam kam milaa karo us se

===================================

احمد فراز

*
*
*
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل و بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے

ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے

یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیے
اب یہی ترک تعلق کے بہانے مانگے

اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لُٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے

زندگی ہم تیرے داغوں سے رہے شرمندہ
اور تو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے

دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جان فراز
مل گئے تم بھی تو کیا اور جانے مانگے


===


دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا

اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار میرا
سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا

صبح دم چھوڑ گیا نکہت گل کی صورت
رات کو غنچہ دل میں سمٹ آنے والا

کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے
وہ جو ایک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا

تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا
آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا

منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ میں
کون آئے گا یہاں کون ہے آنے والا

کیا خبر تھی جو میر ی جاں میں گُھلا ہے اتنا
ہے وہی مجھ کو سر دار بھی لانے والا

میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا



خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بِسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے

وحشت کا سبب روزن زندان تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے

ایک یہ بھی تو انداز علاج غم جاں ہے
اے چارہ گرو درد بڑھا کیوں نہیں دیتے

منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے

رہزن ہو تو حاضر ہے متاع دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتا کیوں نہیں دیتے

کیا بیت گئی اب کے فراز اہل چمن پر
یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے


===


سلسلے توڑگیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جلاتے

کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے

جشن مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے

اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے


===


اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتي
يہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں

غم دنيا بھي غم يار ميں شامل کر لو
نشہ برپا ہے شرابيں جو شرابوں ميں مليں

تو خدا ہے نہ ميرا عشق فرشتوں جيسا
دونوں انساں ہيں تو کيوں اتنے حجابوں ميں مليں

آج ہم دار پہ کھينچے گئے جن باتوں پر
کيا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں ميں مليں

اب نہ وہ ميں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضي ہے فراز
جيسے دو سائے تمنا کے سرابوں ميں مليں





کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گفتگو کرے
جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے

اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دُکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تو کرے

تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی
خود کو گنوا کے کون تیرے جستجو کرے

اب تو یہ آرزو ہے کہ وہ زخم کھائیے
تا زندگی یہ دل نہ کوئی آرزو کرے

تجھ کو بھُلا کے دل ہے وہ شرمندئہ نظر
اب کوئی حادثہ ہی تیرے رو برو کرے

چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فراز
دنیا تو عرض حال سے بے آبرو کرے


===


تو پاس بھی ہو تو دل بیقرار اپنا ہے
کہ ہم کو تیرا نہیں انتظار اپنا ہے

ملے کوئی بھی تیرا ذکر چھیڑ دیتے ہیں
کہ جیسے سارا جہاں رازدار اپنا ہے

وہ دور ہو تو بجا ترکِ دوستی کا خیال
وہ سامنے ہو تو کب اختیار اپنا ہے

زمانے بھر کے دکھوں کو لگا لیا دل سے
اس آسرے پہ کہ اِک غمگسار اپنا ہے

فراز راحت جاں بھی وہی ہے کیا کیجئے
وہ جس کے ہاتھ سے سینہ فگار اپنا ہے




سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اسکو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اسکی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اسکو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے چشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اسکو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اسکی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اسکو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اسکی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
سو راہ روانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اسکا طواف کرتی ہیں
چلے تو اسکو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تو تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

اب اسکے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کرجائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں






بی بی سی اُردو
انڑویو حصہ اول


سوال: فراز صاحب اب لکھنے کا کیا عالم ہے؟

فراز: زیادہ تو میں کبھی بھی نہیں لکھتا تھا۔ کبھی لکھنے پہ آتے ہیں تو دو چار چیزیں اکٹھی ہو جاتی ہیں
،(in one span) کبھی چھ چھ مہینے کچھ نہیں لکھا جاتا، زبردستی نہیں کرتے، طبیعیت کے ساتھ اور شعر کے ساتھ۔ تو وہی میرے لکھنے کی رفتار ہے جو تھی۔

سوال: کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ کیوں لکھتے ہیں؟

فراز: (سوچتے ہوئے) یہ تو، ایسے ہے، اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ پوچھیں کہ سانس کیوں لیتے ہو۔ اب تو یہ میری زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ شروع میں تو شاید کوئی خیال بھی نہیں تھا لیکن جب اس بیماری نے اپنی گرفت میں لیا تو اب نہ یہ جان چھوڑتی ہے اور نہ ، بقول غالب کے ’نہ پھندا ٹوٹتا ہے نہ جان نکلتی ہے‘۔
سوال: لیکن جب آپ نے لکھنا شروع کیا تھا اور پہلی چیز جو آپ نے لکھی تھی کیا وہ آپ کو یاد ہے؟
فراز: ہاں یاد ہے، اس لیے کہ بہت بچپن کا واقعہ ہے اس لیے بھول نہیں سکتا۔ میں نویں سے دسویں میں تھا اور میرے بڑے بھائی محمود دسویں سے کالج میں داخل ہوئے تھے تو والد صاحب ہمارے لیے کچھ کپڑے لائے تھے۔ اس کے لیے تو سوٹ لائے اور میرے لیے کشمیرے کا پیس کوٹ کے لیے لے آئے، تو وہ مجھے بالکل کمبل سا لگا۔ چیک تھا، آج کل تو بہت فیشن ہے لیکن اس وقت وہ مجھے کمبل سا لگا اور میں نے ایک شعر لکھا جو یہ تھا:
سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے
تو بعد میں یہ میرا بنیادی شعر اس اعتبار سے بھی ہوا کہ کلاس کا جو فرق تھا وہ میرے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا اور جب ہم فیملی سے ہٹ کر دنیا کے اور مسائل میں آئے تو پتہ چلا کہ بڑا کنٹراڈکشن (تضاد) ہے تو اسی طرح شاعری بھی میں نے شروع کی، دو طرح کی۔ ایک تو اسی زمانے میں وہ بھی ہوا جسے عشق کہتے ہیں اور ایک یہ بلا بھی تھی۔
خوش ہو اے دل کہ تجھے ایک بلا اور لگی
تو اس طرح میری زندگی دو چیزوں کے گرد گھومتی رہی۔ پھر ہم سوشلزم کی تحریکوں میں رہے، کمیونزم اور کیپیٹلزم پڑھا۔ کالج میں جب تھے تو جب سے ہی پڑھنا شروع کیا۔ پھر کمیونسٹ لیڈر تھے رائٹر بھی تھے نیاز احمد صاحب، تب تک ہمیں کچھ سمجھ نہیں تھی کہ کمیونسسٹ کیا ہوتے ہیں۔ ہم شام کو نیاز حیدر کے پاس جا کر بیٹھتے تھے۔ وہ شام کو اخبار بیچتے تھے اور بہت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ تو ہمیں لگا کہ ٹھیک ٹھاک لوگ ہوتے ہیں۔ خیر پھر وہ انڈیا چلے گئے۔ اس کے بعد ہم ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے لیکن میں کوئی ڈسپلنڈ (منظم) آدمی نہیں تھا، جلسہ ہوتا تھا تو میں اس وقت پہنچتا تھا جب جلسہ ختم ہونے والا ہوتا حالانکہ میں جوائنٹ سیکرٹری تھا۔ فارغ بخاری اس وقت سیکرٹری تھے اور رضا ہمدانی وغیرہ تھے۔ اور مجھے اس لیے جوائنٹ سیکرٹری بنایا گیا تھا کہ نوجوان ہے تو انرجیٹک ہو گا۔ اس کے بعد ریڈیو ملازمت کر لی اس میں بھی سیکھا بہت کچھ۔ میری پہلی اپائنٹمنٹ سکرپٹ رائٹر کے طور پر ہوئی، کراچی میں۔

سوال: تو آپ نے ملازمت شروع کی کراچی سے تو اس زمانے میں وہاں اور کون کون لوگ تھے؟

فراز: وہاں بڑے بڑے لوگ تھے اس وقت، ارم لکھنوی، سیماب اکبر آبادی اور شاہد احمد دہلوی، اور میں تو اردو بول بھی نہیں سکتا تھا اس زمانے تک، لکھ لیتا تھا ٹھیک ٹھاک لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ کراچی جانے سے پہلے تو ادھر ادھر ہم اردو میں بات ہی نہیں کرتے تھے تو جب کراچی پہنچا تو اکثر تو میں چپ رہتا تھا۔ یا ہاں ہوں ہاں کرتا تھا۔ پھر کراچی میں والدہ یاد آتی تھی۔ دن میں سکرپٹ لکھتے تھے اور رات میں والدہ کو یاد کر کے روتے تھے۔ ہم نے سب کی منت زاری کی اور کہا کہ ہم نہیں رہ سکتے، ہم واپس جاتے ہیں۔ تو اس طرح ہمارا ٹرانسفر کر دیا گیا۔ پشاور میں ان دنوں افضل اقبال صاحب تھے ڈائریکٹر پھر ن م راشد آگئے ڈائریکٹر ہو کر۔ تو انہوں نے کہا کہ خالی بیٹھے رہتے ہو پڑھنا کیوں چھوڑا تم نے، یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے کہ یہیں بیٹھ کے کرو۔ کالج ختم کر کے آؤ جو لکھنا ہے وہ گھر جا کر بھی لکھ سکتے ہو۔ تو اس طرح ہم نے کالج جوائن کیا۔ پھر ایم بھی کیا۔

سوال: ایم اے آپ نے کہاں سے کیا؟

فراز: پشاور یونیورسٹی سے۔ اسی زمانے میں میں پروڈیوسر ہو چکا تھا لیکن جب ایم اے کر لیا تو لیکچرر شپ کی آفر آ گئی۔ مجھے پڑھانا بہت پسند تھا تو پشاور یونیورسٹی چلے گئے۔پتا نہیں کیسا پڑھاتا تھا لیکن دوسرے سبجیکٹ کے لڑکے بھی کلاس میں آ جاتے تھے۔ مجھے ٹیچنگ سے واقعی محبت تھی لیکن ایک روز میں نے دیکھا کہ ایک سینئر پروفیسر، پورا نام تو اب ان کا یاد نہیں، خلجی صاحب کو جنہیں اسلامیہ کالج کا پرنسپل بنا دیا گیا تھا، بڑا پریسٹیجس (پُر وقار) کالج ہوتا تھا، الیکشن میں لڑکے خوب گالیاں دے رہے ہیں۔ میں نے سوچا کے پروفیسر کے پاس تو عزت کے سوا کچھ نہیں ہوتا تو اس کے ساتھ بھی یہ ہو رہا ہے، بس وہ دن تھا کہ میں سوچا کہ ٹیچنگ اب نہیں کرنی۔
جو بھی پہلی نوکری ملے گی میں اس پر چلا جاؤں گا۔ اسی دوران اشتہار آیا اور میں نے اس کے لیے اپلائی کر دیا اور وہ واحد ملازمت تھی جس کے لیے میں نے اپلائی کیا تھا۔ لیکن اس پر انہوں نے کسی اور کو رکھ لیا۔ کچھ دن بعد ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ اس نے کوئی حکومت کی بات کی میں نے کہا کہ بھئی ہم نے تو درخواست بھی دی تھی لیکن ہمیں تو انہوں نے انٹرویو کے لیے بھی نہیں بلایا۔ اس کے کچھ دن بعد سیکرٹری کا فون آ گیا۔ دوبارہ انٹرویو ہوئے اور میں سلیکٹ ہو گیا اور اس طرح میں نیشنل سینٹر کا ڈائریکٹر رہا۔ پھر 1977 میں جب بھٹو صاحب اکیڈمی آف لیٹرز قائم کرنا چاہتے تھے تو میں اسلام آباد آ گیا۔ 1977 میں نے ایک نظم لکھی، فوج کے بارے میں ’پیشہ ور قاتلو‘۔ وہ بھٹو صاحب کا آخری زمانہ تھا لیکن فوج نے گرپ (گرفت) حاصل کر لی تھی اور فوج سٹوڈنٹس کو مار رہی تھی تو مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ مجھے انہوں نے دفتر سے گرفتار کیا حالانکہ میں ڈائریکٹر جنرل تھا۔ لیکن وہ آنکھوں پر پٹی وغیرہ باندھ کر لے گئے۔ مانسہرہ کیمپ۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ جب مجھے سپریم کورٹ نے رہا کیا تو انہوں نے مجھ پر کورٹ مارشل کے تحت مقدمہ چلانے کی کوشش کی۔ عدالت سے مجھے وہ سی این سی ہاؤس لے گئے وہاں ضیاء الحق تھا اور میرا ایک دوست وہ جنرل بنا ہوا تھا جنرل عارف۔ ضیاء الحق بھٹو صاحب کی اتنی تعریفیں کر رہا تھا کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ بس یہ سمجھیں کہ خدا کو اس نے معاف کیا باقی تمام پیغبروں سے وہ انہیں اونچا ثابت کر رہا تھا۔ یہ میں 30 جون کی بات کر رہا ہوں اور چار جولائی کو انہوں نے تختہ الٹنا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مجھ سے انگریزی میں کہا کہ ’آپ کو وزیراعظم کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے مداخلت کر کے آپ کو بچایا‘۔ دوسرے دن میں دفتر گیا تو بہت فون آئے۔ اخبار میں آ گیا تھا کہ فوج نے فراز کے خلاف الزامات واپس لے لیے ہیں۔

سوال: کیا آپ کو یہ نظم یاد ہے؟

فراز: نہیں یاد نہیں ہے۔ وہ میں نے کہیں پڑھی بھی نہیں تھی۔ کہیں چھپی تھی اور لوگوں نے اس کی فوٹو کاپیاں کرا کے بانٹی تھیں۔
’پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں‘ یہ اس نظم کی آخری لائن تھی۔ خیر دفتر میں بھٹو صاحب کا فون بھی آیا۔ اس سے پہلے میری ان سے کوئی ملاقات نہیں تھی نہ ہی کبھی بات ہوئی تھی۔ ان کے ملٹری سیکرٹری نے کہا کہ وزیراعظم بات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’فراز دس از می، دس ٹائم آئی سیوڈ یور لائف۔ دے وانٹ ٹو ٹرائی یو‘۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان سے کہا کہ آپ ان دو لوگوں سے انتہائی محتاط رہیے گا۔ انہوں نے پوچھا کن دو لوگوں سے میں نے انہیں بتایا کہ ایک تو جنرل ضیاء الحق سے اور ایک کوثر نیازی سے، میں نے ان سے کہا کہ یہ آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپیں گے اور میں نے اس کی آنکھوں میں مکاری دیکھی ہے۔ انہوں نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی اور کہا کہ یہ کیا کریں گے ہمارا پی این اے سے معاہدہ ہو گیا ہے اور ہم اکتوبر میں انتخابات کرا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شاعری ہو گی؟ میں نے جواب دیا کہ شاعری تو ہو گی لیکن میں نہ تو جالب ہوں اور نہ جمیل الدین عالی۔


سوال: کیا آپ کو شروع ہی سے ادیب اور شاعر بننے کا شوق تھا جیسے بچوں کو ہوتا ہے، ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ بننے کا؟

فراز: نہیں میں تو پائلٹ بننا چاہتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نویں دسویں جماعت میں ہمیں جس پہلی لڑکی سی فیسینیشن (رغبت) ہوئی اس کا بھائی پائلٹ تھا۔ اب یہ قصہ لمبا ہے لیکن وہ ایک وجیہہ آدمی تھا خاص طور پر وردی میں بہت ہینڈسم لگتا تھا۔ میں نے انٹرویو وغیرہ بھی دیا اور سلیکٹ بھی ہو گیا اور کال بھی آ گئی لیکن میری والدہ مخالف تھیں کیونکہ میرا بڑا بھائی فوج میں جا چکا تھا اور میری والدہ کا کہنا تھا کہ وہ سب بچوں کو ادھر نہیں بھیجنا چاہتی۔ تو ان کی چھٹی حس تھی جس کی بنا پر انہوں نے مجھے جانے نہیں دیا کیونکہ میرے ساتھ کے جتنے بھی لڑکے گئے وہ سب ہی مارے گئے کچھ ٹرینگ میں کچھ ویسے۔

سوال: تو وہ پہلی خاتون تھیں؟

فراز: ہاں وہ پہلی تھی۔ اور وہ مجھ پر کوئی تیس سال تک طاری رہی۔ حالانکہ یہ نویں دسویں کی بات تھی۔ خاص طور پر ہماری طرف جہاں پردہ وغیرہ بہت تھا اور میل جول بھی ایسا نہیں ہوتا تھا۔ بہر حال اس کی شادی ہو گئی۔ وہ اس وقت دسویں میں تھی۔ پھر اس سے میری ملاقات تیس سال بعد ہوئی۔ او ہو ہو۔ مجھے اتنی مایوسی ہوئی اس سے مل کر۔ مجھ میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اب تو خیر میرا وزن بھی بڑھ گیا ہے لیکن تب تک میں بہت تبدیل نہیں ہوا تھا اور اس نے ساری باتیں کیں اس طرح کی مجھے شوگر ہے اور مجھے یہ ہے اور وہ ہے اور میں سوچ رہا تھا کہ چائے کی پیالی کب ختم ہو گی۔ مجھے اتنا افسوس اور دکھ ہو رہا تھا کہ کس کے لیے تیس سال کٹے۔

سوال: بیچ میں کوئی نہیں آیا؟

فراز: نہیں آتے رہے۔ میرا وہ شعر ہے نا:
ہم نے جس جس کو بھی چاہا ترے ہجراں میں وہ لوگ
٭ ٭ آتے جاتے ہوئے موسم تھے زمانہ تو تھ



سوال: کتنا کردار ادا کیا آپ کی شاعری میں آپ کے وجیہہ ہونے نے؟ ظاہر ہے آپ شعراء میں ؟

فراز: چھوڑیں جی کوئی اور بات کریں، میں کہاں کا وجیہہ تھا، بس قبول صورت تھا۔ اور اس میں تو دو رائے نہیں کہ بہت پیار مجھے ملا۔ ابھی کچھ روز پہلے میں ہوٹل سے نکل رہا تھا کہ فوجیوں کی ایک گاڑی نے مجھے آگے آ کر ہاتھ دیا میں نے سوچا لو پھر آ گئے۔ اس میں دھڑ دھڑ کرتے ہو ئے کمانڈوز کی وردی میں پہلے سپاہی اترے پھر ایک افسر اور اس نے سو کا نوٹ میرے آگے کیا اور کہا کہ ’اس پر دستخط کر دیں گے آپ؟‘ تو میں نے ان سے کہا کہ تم لوگوں کو اس کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس نے کہا کہ آپ احمد فراز ہیں؟ میں نے کہا کہ فراز تو میں ہوں۔ اس کے بعد ایک اور نے دستخط کرائے۔ تو پیار لوگوں مے بہت دیا۔
اگرچہ میں فوج کے افسروں وغیرہ کو پسند نہیں کرتا لیکن ابھی پچھلے دنوں کراچی ائر پورٹ پر میں اوپر وی آئی پی روم میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا تو پہلے پولیس والے آئے اور آ کر دیکھ داکھ کر چلے گئے پھر دو افسر آئے۔ لیفٹیننٹ کرنل تھے۔ ان میں ایک بڑا سمارٹ سا۔ تو میں نے سوچا اب یہ پوچھے گا یہاں کیوں بیٹھے ہو اور بدمزہ کرے گا حالانکہ وہ جگہ سگریٹ پینے کے لیے ہی مخصوص ہے۔ لیکن وہ قریب آئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ ’میں آپ سے ہاتھ ملانا چاہتا ہوں‘
میں نے ان سے کہا کہ تمہارے ساتھ تمہارے افسر ہیں اور کمانڈوز ہیں کیوں اپنی نوکری کے پیچھے پڑے ہو۔ اس نے جواب میں کہا ’ٹو ہیل ود دیم‘ اور بڑے ادب سے ہاتھ ملا کر چلاگیا۔ تو فوج میں بھی ہم سے محبت کرنے والے ہیں تو ٹھیک ہے۔ میں خوش ہوں اور اتنی محبت مجھے ملی ہے کہ بعض اوقات تو میں سوچتا ہوں کہ میں اس کا حقدار نہیں ہوں۔


سوال: تخلیقی عمل کو آپ کیسے بیان کریں گے؟

فراز: تخلیقی عمل کے حوالے سے پہلی چیز تو یہ ہے کچھ نہ کچھ پاگل پن تو اندر ہوتا ہے اور تخلیقی عمل کے لیے زندگی میں عشق بہت ضروری ہے۔ تو زندگی میں جتنی بھی آگے دھکیلنے والی چیزیں ہیں ان کے پیچھے یہی ہوتا ہے۔ اسے آپ عشق کہہ لیں، لگن کہہ لیں، جنون کہہ لیں، دیوانگی کہہ لیں، کچھ کہہ لیں۔ پھر جب آپ کی دلچسپی ہو جائے تو اس کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ سب کچھ آپ کو اوپر سے تحفتاً مل جائے۔ یہ ضرور ہے کہ رحجان ہوتا ہے لیکن اس کے لیے علم ضروری ہے ، تعلیم ضروری ہے، اس کے لیے تجربہ ضروری ہے۔ لوگوں میں شامل ہونا اور زندگی سے ڈرنا نہیں بلکہ اس کا سامنا کرنا۔ سب سے اہم ہے لوگوں میں شامل ہونا۔ کیونکہ آدمی کا درد کتنا بھی بڑا ہو، چھوٹا ہوتا ہے اور کتنی بھی بڑی اس کی خواہش ہو چھوٹی ہوتی ہے، اس لیے جب آپ لوگوں سے ملتے ہیں تو آپ کو پتا چلتا ہے کہ ان کے دکھ تو بہت زیادہ ہیں اور اگر تب آپ میں تھوڑا سا بھی انصاف ہے تو آپ اپنے غموں کو اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ تو ہم نے یہی سیکھا پڑھ کر بھی اور لوگوں سے مل جل کر بھی۔ ایک اور بات یہ ہے کہ لوگ عشق بھی کرتے ہیں تو مانگے تانگے کا۔ تو سب سے بڑی بات ہوتی ہے اپنا تجربہ۔ اب میں نے دس کتابیں پڑھیں۔ غالب پڑھا، فیض پڑھا، قاسمی پڑھا اور ان کے عشق کے احساس کو دوبارہ بیان کر دیا تو یہ نہیں چلتا۔ آپ کو براہ راست اپنا تجربہ ہونا چاہیے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میری زندگی میں ایسے مواقع آتے رہے جو مجھے تحریک دیتے رہے، چاہے وہ جیل تھی یا ملک بدری تھی، چاہے جلا وطنی میں رہا، چاہے زندگی کے اور دکھوں میں رہا تو ایک اچھی زندگی گزاری۔ دھوپ بھی دیکھی چھاؤں بھی دیکھی لیکن اصل بات تو ہوتی ہے سوچ کا اخلاص (سنسیریٹی آف تھاٹ)۔ لیکن اس ملک کی خرابی یہ ہے کہ یہاں سے سچ کوچ کر گیا ہے اور جہاں سے سچ کوچ کر جائے تو پیچھے پیچھے جاتا ہے انصاف۔ اس کے بعد ڈمی رہ جاتی ہے اور ساری اقدار کی ایسی تیسی ہو جاتی ہے۔

سوال: تو تخلیقی عمل میں آپ کسے زیادہ ترجیح دیتے ہیں، فطری صلاحیت کو یا مہارت کو؟

فراز: یہ دونوں پہلو بہ پہلو چلتے ہیں۔ اب میں تو شاعر ہوں اور شاعری کے حوالے سے ہی کہوں گا کہ اس میں ٹیکنیکل چیزیں بھی بہت سی ہیں، مثلاً آپ میٹر (بحر) ہی کو لے لیں۔ اگر آپ کو میٹر پر مہارت نہیں ہے تو آپ اس میں کھیل نہیں سکتے۔ یا آپ کے پاس کنٹینر (قالب) نہیں ہے تو آپ اپنے مواد کو کیسے سنبھالیں گے۔ تو لفظ جو ہیں وہ کنٹینر ہوتے ہیں سوچ اور فکر کے لیے۔ تو جس زبان میں آپ شعر کہہ رہے ہیں اگر وہ آپ کی زبان نہیں ہے تو آپ کو دگنی محنت کرنی پڑتی ہے، زبان پر بھی اور فکر پر بھی۔ اور اس سے بھی زیادہ تجربہ ہے۔





سوال: آپ کے پسندیدہ شاعر یا ادیب؟

فراز: مجھے شاعری کے مقابلے میں پروز رائٹر پسند رہے ہیں۔ کالج سے ہی مجھے ہارڈی پسند تھا۔ پرلز بک کے ناول میں پڑھتا تھا۔ دوستوؤفسکی کے ناول تو ہم نے بعد میں پڑھے۔ پروز میں میٹر (مواد) بہت ہوتا ہے، دوستوؤفسکی کے ناول آپ پڑھیں تو اس میں آپ کو اتنی ورائٹی آف کریکٹر ملے گی اور ان کی گفتگوئیں ملیں گی۔ شاعری میں تو مجھے بیدل پسند تھا اور ہے۔ پھر حافظ اور سعدی پڑھے ہم نے، میرے والد فارسی کے اچھے خاصے سکالر تھے تو ہم نے ان کی کتابوں سے فیض اٹھایا۔ پھر نئے لوگوں میں ہمیں غالب پسند آیا بلکہ مجھے میر سے زیادہ غالب پسند ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ انیسویں صدی کا سب سے بڑا شاعر غالب تھا۔ اقبال بھی ہے۔ میرے دل میں اقبال کے لیے بھی بڑی عزت ہے کیونکہ اس کا بالکل نیا سٹائل تھا، نیا ڈکشن تھا، وکبلری (ذخیرۂ الفاظ) نئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نظریاتی طور پر اختلاف کر سکتے ہیں لیکن بطور شاعر میں انہیں ایک بڑا شاعر سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد فیض صاحب آئے، فیص صاحب کا یہ ہے کہ انہوں نے نیا راستہ اختیار کیا۔ تو انہوں نے بھی ایک نیا راستہ بنایا، روایت اور جدید کا مکسچر بنا کر۔ میں ان سے بہت متاثر بھی ہوا۔ ان سے سے پہلے ساحر کی نظمیں مجھے بہت پسند تھیں۔ قاسمی صاحب بھی ہمیں بہت پسند تھے اور ہم انہیں پڑھتے تھے۔

سوال: اب کس شاعر آپ زیادہ پڑھتے ہیں؟

فراز: غالب، اصل میں غالب میں یہ خوبی ہے اور ہر بڑے شاعر میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ جس قدر آپ کا تجربہ اور نالج بڑھتی ہے اسی طرح وہ آپ کو اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ ایف میں ہم غالب کو پڑھتے تھے تو وہ کچھ اور تھا، بی اے میں کچھ اور تھا اور ایم میں کچھ اور اور جب پڑھانا شروع کیا تو کچھ اور تھا اب بھی میرے سرہانے غالب یا غالب کے بارے میں کوئی کتاب پڑی ہو گی۔ تو اس میں تو کوئی شک نہیں کہ، مثلاً میں نے اگر کسی شاعر کی زمینوں پر یا غزلوں پر کہی ہیں تو وہ غالب ہی ہے۔ میرا خیال ہے دس بارہ ہون گی، اتنی کسی اور شاعر کی نہیں
ہون گی۔

===================================

Guljee

*
*
*
Ismail Gulgee (October 25, 1926 – December 14, 2007) Pride of Performance, Sitara-e-Imtiaz (twice), Hilal-e-Imtiaz, was an award-winning, globally famous Pakistani artist born in Peshawar. He was a qualified engineer in the U.S. and self-taught abstract painter and portrait painter. Before 1959, as portraitist, he painted the entire Afghan Royal Family. From about 1960 on, he was noted as an abstract painter influenced by the tradition of Islamic calligraphy and by the American "action painting" idiom.





Engineer, portraitist, Islamic calligrapher, and action painter

Initially, he went to Aligarh University to study civil engineering before heading off to USA for continuing his higher education. According to artnet.com, Gulgee started to paint while acquiring his training as an engineer in the United States at Columbia University and then Harvard. His first exhibition was in 1950.
Gulgee was a gifted and consummately skilled naturalistic portrait painter who had enjoyed (according to Partha Mitter) "lavish state support" and plenty of elite commissions in this capacity. Nevertheless, he was perhaps best known worldwide for his abstract work, which was inspired by Islamic calligraphy and was also influenced by the "action painting" movement of the 1950s and 1960s (Mitter notes that Elaine Hamilton was a strong influence in this direction). This is perhaps a natural enough stylistic combination, since in both Islamic calligraphy and action painting a high value is placed on the unity and energy of gestural flow. As with the works of other action painters or abstract expressionists, Gulgee's canvases were often quite large. He was also known for using materials such as mirror glass and gold or silver leaf in his oil paintings, so that they were in fact mixed media pieces.
According to the Metropolitan Museum of Art (see external links): "Gulgee's calligraphy paintings are abstract and gestural interpretations of Arabic and Urdu letters. His sweeping layers of paint explore the formal qualities of oil paint while they make references to Islamic design elements."
Beginning in the 1960s (if not earlier), Gulgee also created sculptures, including bronze pieces that were (like so many of his paintings) calligraphic in form and inspiration, and sometimes specifically based on verses from the Quran [source:artnet.com].
His paintings were bright and full of color, but the paint was put on with great sensitivity, and paintings vibrate with intense feeling. Areas sing with luminous, thin color; thick blobs of paint pulsate with fiberglass tears, the brush swirls strong and free. The total effect used to be very free, yet considered and well thought out. They work enormously well, because it was all orchestrated with great care and concentration.
His son Amin Gulgee is also a famous artist.
[Note: the name is also spelled "Guljee", "Gulji", or "Gulgi" in some sources.]

International and special assignments

Guljee, as he was famously known, received many requests for his paintings internationally, from the Saudi royal family to the Islamabad presidency. Many of his works are placed in the "Faisal Mosque" in Islamabad. Guljee received many awards, including in Pakistan, Saudi Arabia, Japan and France.
[edit]Exhibition and personal life

Guljee's exhibitions have mostly been available to few people. Keeping that in mind and high demand from public and lovers of his works, an art gallery for Guljee has been built in Clifton, Karachi near South City Hospital and Sea View Karachi. Guljee mostly painted for his own inspirations and vision. Although selected paintings are available for sale in Guljee art gallery. Guljee was last based in Boat Basin in Karachi. He has a son Amin Guljee. Ismail Guljee belongs to Shia Ismaili sect of Islam.

Suspicious death

Gulgee, his wife Zarrin Gulgee and a maid were found dead in their house on the evening of December 19, 2007 by his servants. Police suspect that all three had been murdered. While the bodies were found on the 19th, officials report that they had apparently been deceased for three days, leading to a speculative death date of December 16, 2007. Their bodies were found bound and gagged in separate rooms of the house. The initial cause of death for all three has been attributed to suffocation. According to press reports, his son reported that Gulgee's car and driver are missing. Gulgee was buried on the evening of December 20, 2007, in Karachi.
(wikipedia)









===================================

z

z