مدیر: ثمینہ راجہ

Sunday, December 13, 2009

احمد فراز

*
*
*
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل و بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے

ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے

یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیے
اب یہی ترک تعلق کے بہانے مانگے

اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لُٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے

زندگی ہم تیرے داغوں سے رہے شرمندہ
اور تو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے

دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جان فراز
مل گئے تم بھی تو کیا اور جانے مانگے


===


دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا

اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار میرا
سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا

صبح دم چھوڑ گیا نکہت گل کی صورت
رات کو غنچہ دل میں سمٹ آنے والا

کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے
وہ جو ایک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا

تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا
آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا

منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ میں
کون آئے گا یہاں کون ہے آنے والا

کیا خبر تھی جو میر ی جاں میں گُھلا ہے اتنا
ہے وہی مجھ کو سر دار بھی لانے والا

میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا



خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بِسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے

وحشت کا سبب روزن زندان تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے

ایک یہ بھی تو انداز علاج غم جاں ہے
اے چارہ گرو درد بڑھا کیوں نہیں دیتے

منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے

رہزن ہو تو حاضر ہے متاع دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتا کیوں نہیں دیتے

کیا بیت گئی اب کے فراز اہل چمن پر
یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے


===


سلسلے توڑگیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جلاتے

کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے

جشن مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے

اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے


===


اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتي
يہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں

غم دنيا بھي غم يار ميں شامل کر لو
نشہ برپا ہے شرابيں جو شرابوں ميں مليں

تو خدا ہے نہ ميرا عشق فرشتوں جيسا
دونوں انساں ہيں تو کيوں اتنے حجابوں ميں مليں

آج ہم دار پہ کھينچے گئے جن باتوں پر
کيا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں ميں مليں

اب نہ وہ ميں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضي ہے فراز
جيسے دو سائے تمنا کے سرابوں ميں مليں





کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گفتگو کرے
جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے

اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دُکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تو کرے

تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی
خود کو گنوا کے کون تیرے جستجو کرے

اب تو یہ آرزو ہے کہ وہ زخم کھائیے
تا زندگی یہ دل نہ کوئی آرزو کرے

تجھ کو بھُلا کے دل ہے وہ شرمندئہ نظر
اب کوئی حادثہ ہی تیرے رو برو کرے

چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فراز
دنیا تو عرض حال سے بے آبرو کرے


===


تو پاس بھی ہو تو دل بیقرار اپنا ہے
کہ ہم کو تیرا نہیں انتظار اپنا ہے

ملے کوئی بھی تیرا ذکر چھیڑ دیتے ہیں
کہ جیسے سارا جہاں رازدار اپنا ہے

وہ دور ہو تو بجا ترکِ دوستی کا خیال
وہ سامنے ہو تو کب اختیار اپنا ہے

زمانے بھر کے دکھوں کو لگا لیا دل سے
اس آسرے پہ کہ اِک غمگسار اپنا ہے

فراز راحت جاں بھی وہی ہے کیا کیجئے
وہ جس کے ہاتھ سے سینہ فگار اپنا ہے




سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اسکو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اسکی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اسکو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے چشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اسکو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اسکی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اسکو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اسکی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
سو راہ روانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اسکا طواف کرتی ہیں
چلے تو اسکو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تو تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

اب اسکے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کرجائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں






بی بی سی اُردو
انڑویو حصہ اول


سوال: فراز صاحب اب لکھنے کا کیا عالم ہے؟

فراز: زیادہ تو میں کبھی بھی نہیں لکھتا تھا۔ کبھی لکھنے پہ آتے ہیں تو دو چار چیزیں اکٹھی ہو جاتی ہیں
،(in one span) کبھی چھ چھ مہینے کچھ نہیں لکھا جاتا، زبردستی نہیں کرتے، طبیعیت کے ساتھ اور شعر کے ساتھ۔ تو وہی میرے لکھنے کی رفتار ہے جو تھی۔

سوال: کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ کیوں لکھتے ہیں؟

فراز: (سوچتے ہوئے) یہ تو، ایسے ہے، اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ پوچھیں کہ سانس کیوں لیتے ہو۔ اب تو یہ میری زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ شروع میں تو شاید کوئی خیال بھی نہیں تھا لیکن جب اس بیماری نے اپنی گرفت میں لیا تو اب نہ یہ جان چھوڑتی ہے اور نہ ، بقول غالب کے ’نہ پھندا ٹوٹتا ہے نہ جان نکلتی ہے‘۔
سوال: لیکن جب آپ نے لکھنا شروع کیا تھا اور پہلی چیز جو آپ نے لکھی تھی کیا وہ آپ کو یاد ہے؟
فراز: ہاں یاد ہے، اس لیے کہ بہت بچپن کا واقعہ ہے اس لیے بھول نہیں سکتا۔ میں نویں سے دسویں میں تھا اور میرے بڑے بھائی محمود دسویں سے کالج میں داخل ہوئے تھے تو والد صاحب ہمارے لیے کچھ کپڑے لائے تھے۔ اس کے لیے تو سوٹ لائے اور میرے لیے کشمیرے کا پیس کوٹ کے لیے لے آئے، تو وہ مجھے بالکل کمبل سا لگا۔ چیک تھا، آج کل تو بہت فیشن ہے لیکن اس وقت وہ مجھے کمبل سا لگا اور میں نے ایک شعر لکھا جو یہ تھا:
سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے
تو بعد میں یہ میرا بنیادی شعر اس اعتبار سے بھی ہوا کہ کلاس کا جو فرق تھا وہ میرے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا اور جب ہم فیملی سے ہٹ کر دنیا کے اور مسائل میں آئے تو پتہ چلا کہ بڑا کنٹراڈکشن (تضاد) ہے تو اسی طرح شاعری بھی میں نے شروع کی، دو طرح کی۔ ایک تو اسی زمانے میں وہ بھی ہوا جسے عشق کہتے ہیں اور ایک یہ بلا بھی تھی۔
خوش ہو اے دل کہ تجھے ایک بلا اور لگی
تو اس طرح میری زندگی دو چیزوں کے گرد گھومتی رہی۔ پھر ہم سوشلزم کی تحریکوں میں رہے، کمیونزم اور کیپیٹلزم پڑھا۔ کالج میں جب تھے تو جب سے ہی پڑھنا شروع کیا۔ پھر کمیونسٹ لیڈر تھے رائٹر بھی تھے نیاز احمد صاحب، تب تک ہمیں کچھ سمجھ نہیں تھی کہ کمیونسسٹ کیا ہوتے ہیں۔ ہم شام کو نیاز حیدر کے پاس جا کر بیٹھتے تھے۔ وہ شام کو اخبار بیچتے تھے اور بہت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ تو ہمیں لگا کہ ٹھیک ٹھاک لوگ ہوتے ہیں۔ خیر پھر وہ انڈیا چلے گئے۔ اس کے بعد ہم ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے لیکن میں کوئی ڈسپلنڈ (منظم) آدمی نہیں تھا، جلسہ ہوتا تھا تو میں اس وقت پہنچتا تھا جب جلسہ ختم ہونے والا ہوتا حالانکہ میں جوائنٹ سیکرٹری تھا۔ فارغ بخاری اس وقت سیکرٹری تھے اور رضا ہمدانی وغیرہ تھے۔ اور مجھے اس لیے جوائنٹ سیکرٹری بنایا گیا تھا کہ نوجوان ہے تو انرجیٹک ہو گا۔ اس کے بعد ریڈیو ملازمت کر لی اس میں بھی سیکھا بہت کچھ۔ میری پہلی اپائنٹمنٹ سکرپٹ رائٹر کے طور پر ہوئی، کراچی میں۔

سوال: تو آپ نے ملازمت شروع کی کراچی سے تو اس زمانے میں وہاں اور کون کون لوگ تھے؟

فراز: وہاں بڑے بڑے لوگ تھے اس وقت، ارم لکھنوی، سیماب اکبر آبادی اور شاہد احمد دہلوی، اور میں تو اردو بول بھی نہیں سکتا تھا اس زمانے تک، لکھ لیتا تھا ٹھیک ٹھاک لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ کراچی جانے سے پہلے تو ادھر ادھر ہم اردو میں بات ہی نہیں کرتے تھے تو جب کراچی پہنچا تو اکثر تو میں چپ رہتا تھا۔ یا ہاں ہوں ہاں کرتا تھا۔ پھر کراچی میں والدہ یاد آتی تھی۔ دن میں سکرپٹ لکھتے تھے اور رات میں والدہ کو یاد کر کے روتے تھے۔ ہم نے سب کی منت زاری کی اور کہا کہ ہم نہیں رہ سکتے، ہم واپس جاتے ہیں۔ تو اس طرح ہمارا ٹرانسفر کر دیا گیا۔ پشاور میں ان دنوں افضل اقبال صاحب تھے ڈائریکٹر پھر ن م راشد آگئے ڈائریکٹر ہو کر۔ تو انہوں نے کہا کہ خالی بیٹھے رہتے ہو پڑھنا کیوں چھوڑا تم نے، یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے کہ یہیں بیٹھ کے کرو۔ کالج ختم کر کے آؤ جو لکھنا ہے وہ گھر جا کر بھی لکھ سکتے ہو۔ تو اس طرح ہم نے کالج جوائن کیا۔ پھر ایم بھی کیا۔

سوال: ایم اے آپ نے کہاں سے کیا؟

فراز: پشاور یونیورسٹی سے۔ اسی زمانے میں میں پروڈیوسر ہو چکا تھا لیکن جب ایم اے کر لیا تو لیکچرر شپ کی آفر آ گئی۔ مجھے پڑھانا بہت پسند تھا تو پشاور یونیورسٹی چلے گئے۔پتا نہیں کیسا پڑھاتا تھا لیکن دوسرے سبجیکٹ کے لڑکے بھی کلاس میں آ جاتے تھے۔ مجھے ٹیچنگ سے واقعی محبت تھی لیکن ایک روز میں نے دیکھا کہ ایک سینئر پروفیسر، پورا نام تو اب ان کا یاد نہیں، خلجی صاحب کو جنہیں اسلامیہ کالج کا پرنسپل بنا دیا گیا تھا، بڑا پریسٹیجس (پُر وقار) کالج ہوتا تھا، الیکشن میں لڑکے خوب گالیاں دے رہے ہیں۔ میں نے سوچا کے پروفیسر کے پاس تو عزت کے سوا کچھ نہیں ہوتا تو اس کے ساتھ بھی یہ ہو رہا ہے، بس وہ دن تھا کہ میں سوچا کہ ٹیچنگ اب نہیں کرنی۔
جو بھی پہلی نوکری ملے گی میں اس پر چلا جاؤں گا۔ اسی دوران اشتہار آیا اور میں نے اس کے لیے اپلائی کر دیا اور وہ واحد ملازمت تھی جس کے لیے میں نے اپلائی کیا تھا۔ لیکن اس پر انہوں نے کسی اور کو رکھ لیا۔ کچھ دن بعد ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ اس نے کوئی حکومت کی بات کی میں نے کہا کہ بھئی ہم نے تو درخواست بھی دی تھی لیکن ہمیں تو انہوں نے انٹرویو کے لیے بھی نہیں بلایا۔ اس کے کچھ دن بعد سیکرٹری کا فون آ گیا۔ دوبارہ انٹرویو ہوئے اور میں سلیکٹ ہو گیا اور اس طرح میں نیشنل سینٹر کا ڈائریکٹر رہا۔ پھر 1977 میں جب بھٹو صاحب اکیڈمی آف لیٹرز قائم کرنا چاہتے تھے تو میں اسلام آباد آ گیا۔ 1977 میں نے ایک نظم لکھی، فوج کے بارے میں ’پیشہ ور قاتلو‘۔ وہ بھٹو صاحب کا آخری زمانہ تھا لیکن فوج نے گرپ (گرفت) حاصل کر لی تھی اور فوج سٹوڈنٹس کو مار رہی تھی تو مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ مجھے انہوں نے دفتر سے گرفتار کیا حالانکہ میں ڈائریکٹر جنرل تھا۔ لیکن وہ آنکھوں پر پٹی وغیرہ باندھ کر لے گئے۔ مانسہرہ کیمپ۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ جب مجھے سپریم کورٹ نے رہا کیا تو انہوں نے مجھ پر کورٹ مارشل کے تحت مقدمہ چلانے کی کوشش کی۔ عدالت سے مجھے وہ سی این سی ہاؤس لے گئے وہاں ضیاء الحق تھا اور میرا ایک دوست وہ جنرل بنا ہوا تھا جنرل عارف۔ ضیاء الحق بھٹو صاحب کی اتنی تعریفیں کر رہا تھا کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ بس یہ سمجھیں کہ خدا کو اس نے معاف کیا باقی تمام پیغبروں سے وہ انہیں اونچا ثابت کر رہا تھا۔ یہ میں 30 جون کی بات کر رہا ہوں اور چار جولائی کو انہوں نے تختہ الٹنا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مجھ سے انگریزی میں کہا کہ ’آپ کو وزیراعظم کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے مداخلت کر کے آپ کو بچایا‘۔ دوسرے دن میں دفتر گیا تو بہت فون آئے۔ اخبار میں آ گیا تھا کہ فوج نے فراز کے خلاف الزامات واپس لے لیے ہیں۔

سوال: کیا آپ کو یہ نظم یاد ہے؟

فراز: نہیں یاد نہیں ہے۔ وہ میں نے کہیں پڑھی بھی نہیں تھی۔ کہیں چھپی تھی اور لوگوں نے اس کی فوٹو کاپیاں کرا کے بانٹی تھیں۔
’پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں‘ یہ اس نظم کی آخری لائن تھی۔ خیر دفتر میں بھٹو صاحب کا فون بھی آیا۔ اس سے پہلے میری ان سے کوئی ملاقات نہیں تھی نہ ہی کبھی بات ہوئی تھی۔ ان کے ملٹری سیکرٹری نے کہا کہ وزیراعظم بات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’فراز دس از می، دس ٹائم آئی سیوڈ یور لائف۔ دے وانٹ ٹو ٹرائی یو‘۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان سے کہا کہ آپ ان دو لوگوں سے انتہائی محتاط رہیے گا۔ انہوں نے پوچھا کن دو لوگوں سے میں نے انہیں بتایا کہ ایک تو جنرل ضیاء الحق سے اور ایک کوثر نیازی سے، میں نے ان سے کہا کہ یہ آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپیں گے اور میں نے اس کی آنکھوں میں مکاری دیکھی ہے۔ انہوں نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی اور کہا کہ یہ کیا کریں گے ہمارا پی این اے سے معاہدہ ہو گیا ہے اور ہم اکتوبر میں انتخابات کرا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شاعری ہو گی؟ میں نے جواب دیا کہ شاعری تو ہو گی لیکن میں نہ تو جالب ہوں اور نہ جمیل الدین عالی۔


سوال: کیا آپ کو شروع ہی سے ادیب اور شاعر بننے کا شوق تھا جیسے بچوں کو ہوتا ہے، ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ بننے کا؟

فراز: نہیں میں تو پائلٹ بننا چاہتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نویں دسویں جماعت میں ہمیں جس پہلی لڑکی سی فیسینیشن (رغبت) ہوئی اس کا بھائی پائلٹ تھا۔ اب یہ قصہ لمبا ہے لیکن وہ ایک وجیہہ آدمی تھا خاص طور پر وردی میں بہت ہینڈسم لگتا تھا۔ میں نے انٹرویو وغیرہ بھی دیا اور سلیکٹ بھی ہو گیا اور کال بھی آ گئی لیکن میری والدہ مخالف تھیں کیونکہ میرا بڑا بھائی فوج میں جا چکا تھا اور میری والدہ کا کہنا تھا کہ وہ سب بچوں کو ادھر نہیں بھیجنا چاہتی۔ تو ان کی چھٹی حس تھی جس کی بنا پر انہوں نے مجھے جانے نہیں دیا کیونکہ میرے ساتھ کے جتنے بھی لڑکے گئے وہ سب ہی مارے گئے کچھ ٹرینگ میں کچھ ویسے۔

سوال: تو وہ پہلی خاتون تھیں؟

فراز: ہاں وہ پہلی تھی۔ اور وہ مجھ پر کوئی تیس سال تک طاری رہی۔ حالانکہ یہ نویں دسویں کی بات تھی۔ خاص طور پر ہماری طرف جہاں پردہ وغیرہ بہت تھا اور میل جول بھی ایسا نہیں ہوتا تھا۔ بہر حال اس کی شادی ہو گئی۔ وہ اس وقت دسویں میں تھی۔ پھر اس سے میری ملاقات تیس سال بعد ہوئی۔ او ہو ہو۔ مجھے اتنی مایوسی ہوئی اس سے مل کر۔ مجھ میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اب تو خیر میرا وزن بھی بڑھ گیا ہے لیکن تب تک میں بہت تبدیل نہیں ہوا تھا اور اس نے ساری باتیں کیں اس طرح کی مجھے شوگر ہے اور مجھے یہ ہے اور وہ ہے اور میں سوچ رہا تھا کہ چائے کی پیالی کب ختم ہو گی۔ مجھے اتنا افسوس اور دکھ ہو رہا تھا کہ کس کے لیے تیس سال کٹے۔

سوال: بیچ میں کوئی نہیں آیا؟

فراز: نہیں آتے رہے۔ میرا وہ شعر ہے نا:
ہم نے جس جس کو بھی چاہا ترے ہجراں میں وہ لوگ
٭ ٭ آتے جاتے ہوئے موسم تھے زمانہ تو تھ



سوال: کتنا کردار ادا کیا آپ کی شاعری میں آپ کے وجیہہ ہونے نے؟ ظاہر ہے آپ شعراء میں ؟

فراز: چھوڑیں جی کوئی اور بات کریں، میں کہاں کا وجیہہ تھا، بس قبول صورت تھا۔ اور اس میں تو دو رائے نہیں کہ بہت پیار مجھے ملا۔ ابھی کچھ روز پہلے میں ہوٹل سے نکل رہا تھا کہ فوجیوں کی ایک گاڑی نے مجھے آگے آ کر ہاتھ دیا میں نے سوچا لو پھر آ گئے۔ اس میں دھڑ دھڑ کرتے ہو ئے کمانڈوز کی وردی میں پہلے سپاہی اترے پھر ایک افسر اور اس نے سو کا نوٹ میرے آگے کیا اور کہا کہ ’اس پر دستخط کر دیں گے آپ؟‘ تو میں نے ان سے کہا کہ تم لوگوں کو اس کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس نے کہا کہ آپ احمد فراز ہیں؟ میں نے کہا کہ فراز تو میں ہوں۔ اس کے بعد ایک اور نے دستخط کرائے۔ تو پیار لوگوں مے بہت دیا۔
اگرچہ میں فوج کے افسروں وغیرہ کو پسند نہیں کرتا لیکن ابھی پچھلے دنوں کراچی ائر پورٹ پر میں اوپر وی آئی پی روم میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا تو پہلے پولیس والے آئے اور آ کر دیکھ داکھ کر چلے گئے پھر دو افسر آئے۔ لیفٹیننٹ کرنل تھے۔ ان میں ایک بڑا سمارٹ سا۔ تو میں نے سوچا اب یہ پوچھے گا یہاں کیوں بیٹھے ہو اور بدمزہ کرے گا حالانکہ وہ جگہ سگریٹ پینے کے لیے ہی مخصوص ہے۔ لیکن وہ قریب آئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ ’میں آپ سے ہاتھ ملانا چاہتا ہوں‘
میں نے ان سے کہا کہ تمہارے ساتھ تمہارے افسر ہیں اور کمانڈوز ہیں کیوں اپنی نوکری کے پیچھے پڑے ہو۔ اس نے جواب میں کہا ’ٹو ہیل ود دیم‘ اور بڑے ادب سے ہاتھ ملا کر چلاگیا۔ تو فوج میں بھی ہم سے محبت کرنے والے ہیں تو ٹھیک ہے۔ میں خوش ہوں اور اتنی محبت مجھے ملی ہے کہ بعض اوقات تو میں سوچتا ہوں کہ میں اس کا حقدار نہیں ہوں۔


سوال: تخلیقی عمل کو آپ کیسے بیان کریں گے؟

فراز: تخلیقی عمل کے حوالے سے پہلی چیز تو یہ ہے کچھ نہ کچھ پاگل پن تو اندر ہوتا ہے اور تخلیقی عمل کے لیے زندگی میں عشق بہت ضروری ہے۔ تو زندگی میں جتنی بھی آگے دھکیلنے والی چیزیں ہیں ان کے پیچھے یہی ہوتا ہے۔ اسے آپ عشق کہہ لیں، لگن کہہ لیں، جنون کہہ لیں، دیوانگی کہہ لیں، کچھ کہہ لیں۔ پھر جب آپ کی دلچسپی ہو جائے تو اس کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ سب کچھ آپ کو اوپر سے تحفتاً مل جائے۔ یہ ضرور ہے کہ رحجان ہوتا ہے لیکن اس کے لیے علم ضروری ہے ، تعلیم ضروری ہے، اس کے لیے تجربہ ضروری ہے۔ لوگوں میں شامل ہونا اور زندگی سے ڈرنا نہیں بلکہ اس کا سامنا کرنا۔ سب سے اہم ہے لوگوں میں شامل ہونا۔ کیونکہ آدمی کا درد کتنا بھی بڑا ہو، چھوٹا ہوتا ہے اور کتنی بھی بڑی اس کی خواہش ہو چھوٹی ہوتی ہے، اس لیے جب آپ لوگوں سے ملتے ہیں تو آپ کو پتا چلتا ہے کہ ان کے دکھ تو بہت زیادہ ہیں اور اگر تب آپ میں تھوڑا سا بھی انصاف ہے تو آپ اپنے غموں کو اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ تو ہم نے یہی سیکھا پڑھ کر بھی اور لوگوں سے مل جل کر بھی۔ ایک اور بات یہ ہے کہ لوگ عشق بھی کرتے ہیں تو مانگے تانگے کا۔ تو سب سے بڑی بات ہوتی ہے اپنا تجربہ۔ اب میں نے دس کتابیں پڑھیں۔ غالب پڑھا، فیض پڑھا، قاسمی پڑھا اور ان کے عشق کے احساس کو دوبارہ بیان کر دیا تو یہ نہیں چلتا۔ آپ کو براہ راست اپنا تجربہ ہونا چاہیے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میری زندگی میں ایسے مواقع آتے رہے جو مجھے تحریک دیتے رہے، چاہے وہ جیل تھی یا ملک بدری تھی، چاہے جلا وطنی میں رہا، چاہے زندگی کے اور دکھوں میں رہا تو ایک اچھی زندگی گزاری۔ دھوپ بھی دیکھی چھاؤں بھی دیکھی لیکن اصل بات تو ہوتی ہے سوچ کا اخلاص (سنسیریٹی آف تھاٹ)۔ لیکن اس ملک کی خرابی یہ ہے کہ یہاں سے سچ کوچ کر گیا ہے اور جہاں سے سچ کوچ کر جائے تو پیچھے پیچھے جاتا ہے انصاف۔ اس کے بعد ڈمی رہ جاتی ہے اور ساری اقدار کی ایسی تیسی ہو جاتی ہے۔

سوال: تو تخلیقی عمل میں آپ کسے زیادہ ترجیح دیتے ہیں، فطری صلاحیت کو یا مہارت کو؟

فراز: یہ دونوں پہلو بہ پہلو چلتے ہیں۔ اب میں تو شاعر ہوں اور شاعری کے حوالے سے ہی کہوں گا کہ اس میں ٹیکنیکل چیزیں بھی بہت سی ہیں، مثلاً آپ میٹر (بحر) ہی کو لے لیں۔ اگر آپ کو میٹر پر مہارت نہیں ہے تو آپ اس میں کھیل نہیں سکتے۔ یا آپ کے پاس کنٹینر (قالب) نہیں ہے تو آپ اپنے مواد کو کیسے سنبھالیں گے۔ تو لفظ جو ہیں وہ کنٹینر ہوتے ہیں سوچ اور فکر کے لیے۔ تو جس زبان میں آپ شعر کہہ رہے ہیں اگر وہ آپ کی زبان نہیں ہے تو آپ کو دگنی محنت کرنی پڑتی ہے، زبان پر بھی اور فکر پر بھی۔ اور اس سے بھی زیادہ تجربہ ہے۔





سوال: آپ کے پسندیدہ شاعر یا ادیب؟

فراز: مجھے شاعری کے مقابلے میں پروز رائٹر پسند رہے ہیں۔ کالج سے ہی مجھے ہارڈی پسند تھا۔ پرلز بک کے ناول میں پڑھتا تھا۔ دوستوؤفسکی کے ناول تو ہم نے بعد میں پڑھے۔ پروز میں میٹر (مواد) بہت ہوتا ہے، دوستوؤفسکی کے ناول آپ پڑھیں تو اس میں آپ کو اتنی ورائٹی آف کریکٹر ملے گی اور ان کی گفتگوئیں ملیں گی۔ شاعری میں تو مجھے بیدل پسند تھا اور ہے۔ پھر حافظ اور سعدی پڑھے ہم نے، میرے والد فارسی کے اچھے خاصے سکالر تھے تو ہم نے ان کی کتابوں سے فیض اٹھایا۔ پھر نئے لوگوں میں ہمیں غالب پسند آیا بلکہ مجھے میر سے زیادہ غالب پسند ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ انیسویں صدی کا سب سے بڑا شاعر غالب تھا۔ اقبال بھی ہے۔ میرے دل میں اقبال کے لیے بھی بڑی عزت ہے کیونکہ اس کا بالکل نیا سٹائل تھا، نیا ڈکشن تھا، وکبلری (ذخیرۂ الفاظ) نئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نظریاتی طور پر اختلاف کر سکتے ہیں لیکن بطور شاعر میں انہیں ایک بڑا شاعر سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد فیض صاحب آئے، فیص صاحب کا یہ ہے کہ انہوں نے نیا راستہ اختیار کیا۔ تو انہوں نے بھی ایک نیا راستہ بنایا، روایت اور جدید کا مکسچر بنا کر۔ میں ان سے بہت متاثر بھی ہوا۔ ان سے سے پہلے ساحر کی نظمیں مجھے بہت پسند تھیں۔ قاسمی صاحب بھی ہمیں بہت پسند تھے اور ہم انہیں پڑھتے تھے۔

سوال: اب کس شاعر آپ زیادہ پڑھتے ہیں؟

فراز: غالب، اصل میں غالب میں یہ خوبی ہے اور ہر بڑے شاعر میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ جس قدر آپ کا تجربہ اور نالج بڑھتی ہے اسی طرح وہ آپ کو اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ ایف میں ہم غالب کو پڑھتے تھے تو وہ کچھ اور تھا، بی اے میں کچھ اور تھا اور ایم میں کچھ اور اور جب پڑھانا شروع کیا تو کچھ اور تھا اب بھی میرے سرہانے غالب یا غالب کے بارے میں کوئی کتاب پڑی ہو گی۔ تو اس میں تو کوئی شک نہیں کہ، مثلاً میں نے اگر کسی شاعر کی زمینوں پر یا غزلوں پر کہی ہیں تو وہ غالب ہی ہے۔ میرا خیال ہے دس بارہ ہون گی، اتنی کسی اور شاعر کی نہیں
ہون گی۔

===================================

No comments:

Post a Comment

z

z