مدیر: ثمینہ راجہ

Monday, December 14, 2009

سعادت حسن منٹو

*
*
*
موذیل
====

ترلو چن نے پہلی مرتبہ ۔۔۔۔۔۔چار برسوں میں میں پہلی مرتبہ رات کو آسمان دیکھا تھا اور وہ بھی اس لئے کہ اس کی طبعیت سخت گھبرائی ہوئی تھی اور وہ نہ محض کھلی ہوا میں کچھ دیر سوچنے کیلئے اڈوانی چیمبرز کے ٹیرس پر چلا آیا تھا۔
آسمان بالکل صاف تھا بادلوں سے بے نیاز، بہت بڑے خاکستری تنبو کی طرح ساری بمبئی پر تنا ہوا تھا، حد نظر تک جگہ جگہ بتیاں روشن تھیں، ترلو چن نے ایسا محسوس کیا تھا کہ آسمان سے بہت سارے ستارے جھڑ کر بلڈنگوں سے جو رات کے اندھیرے میں بڑے بڑے درخت معلوم ہوتی تھیں، اٹک گئے، اور جگنوؤں کی طرح ٹمٹارہے ہیں۔
ترلوچن کیلئے یہ بالکل ایک نیا تجربہ، ایک نئی کیفیت تھی، ۔۔۔رات کو کھلے آسمان کے نیچے ہونا اس نے محسوس کیا کہ وہ چار برس تک اپنے فلیٹ میں قید رہا، اور قدرست تھی کہ ایک بہت بڑی نعمت سے محروم، قریب قریب تین بجے تھے، ہوا بے حد ہلکی ہلکی تھی، ترلو چن پنکھے کی میکانی ہوا کا عادی ہوچکا تھا، جو اس کے سارے وجود کو بوجھل کردیتی تھی، صبح اٹھ کر وہ ہمیشہ یوں محسوس کرتا تھا، کہ رات بھر اس اس کو مارا پیٹا گیا ہے، پر اب صبح کی قدرتی ہوا میں اس کے جسم کا رواں رواں، تروتازگی چوس کر خوش ہو رہا تھا، جب وہ اوپر آیا تھا تو اس کا دل و دماغ سخت مضطرب اور ہیجان زدہ تھا، لیکن آدھے گھنٹے ہی میں وہ اضطراب اور ہیجان جو اس کو بہت تنگ کر رہا تھا، کسی حد تک ٹھنڈا ہو گیا تھا اور اب صاف طور پر سوچ سکتا تھا۔ کرپال کو راور کا سارا خاندان۔۔۔۔۔محلے میں تھا، جو کٹر مسلمانوں کا مرکز تھا، یہاں کئی مکانوں کو آگ لگ چکی تھی، کئی جانیں تلف ہوچکی تھیں، ترلو چن ان سب کو لے آیا ہوتا، مگر مصیبت یہ تھی، کہ کرفیو نافذ ہوگیا تھا اور وہ بھی نہ جانے کتنے گھنٹوں کا۔۔۔۔غالبا اڑتالیس گھنٹوں کا ۔۔۔۔۔ اور ترلو چن لازما مغلوب تھا، آس پاس سب مسلمان تھے، بڑے خوفناک مسلمان تھے، اور پنجاب سے دھڑا دھڑ خبریں آرہی تھیں کہ وہاں سکھ مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھا رہے ہیں، کوئی بھی ہاتھ۔۔۔مسلمان ہاتھ بڑی آسانی سے نرم و نازک کرپال کور کی کلائی پکڑ کر موت کے کنوئیں کی طرف لے جاسکتا تھا۔
کرپال کی ماں اندھی تھی، باپ مفلوج، بھائی تھا، وہ کچھ عرصے سے دیوالی میں تھا کہ اسے وہاں اپنے تازہ تازہ لئے ہوئے ٹھیکے کی دیکھ بھال کرنا تھی، ترلو چن کو کرپال کے بھائی نرجن پر بہت غصہ آتا تھا، اس نے جو کہ ہر روز اخبار پڑھتا تھا، فسادات کی تیزی و تندہی کے متعلق ہفتہ بھر پہلے آگاہ کر دیا تھا، اور صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا، نر نجن یہ ٹھیکے ویکے رہنے دو ہم ایک بہت ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں، تمہارا اگر چہ رہنا بہت ضروری ہے، لیکن یہاں سے اٹھ جاؤں اور میرے یہاں چلے آؤ، اس میں کوئی شک نہیں کہ جگہ کم ہے، لیکن مصیبت کے دنوں میں آدمی کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیا کرتا ہے، مگر وہ مانا، اس کا اتنا بڑا لیکچر سن کر صاف اپنی گھنی موچھوں میں مسکرادیا، یار تم خواہ مخواہ فکر مند ہوتے ہو۔۔۔۔میں نے یہاں ایسے کئی فساد دیکھے ہیں، یہ امرتسر یا لاھور نہیں ہے، بمبے ہے۔۔۔۔۔بمبے تمہیں یہاں آئے صرف چار برس ہوئے ہیں، اور میں بارہ برس سے یہاں ہوں۔۔۔۔۔بارہ برس سے۔





جانے نرجن بمبئی کو کیا سمجھتا تھا، اس کا خیال تھا کہ یہ ایسا شہر ہے، اگر فساد برپا بھی ہو تو انکو اثر خود بخود زائل ہوتا ہے، جیسے کہ اس کے پاس چھو منتر ہے۔۔۔۔۔۔یا وہ کہانیوں کا کوئی ایسا قلعہ ہے، جس پر کوئی آفت نہیں آسکتی ہے مگر ترلو چن صبح کی ٹھنڈی ہوا میں صاف دیکھ رہا تھا کہ۔۔۔۔۔محلہ بالکل محفوظ نہیں، وہ تو صبح کے اخباروں میں یہ بھی پڑھنے کیلئے تیار تھا کہ کرپال کور اور اس کے ماں بار قتل ہو چکے ہیں۔اس کو کرپال کور کے مفلوج باپ اور اس کی اندھی ماں کی کوئی پرواہ نہیں تھی، وہاں دیو لالی میں اس کا بھائی نرنجن بھی مارا جاتا تو اور بھی اچھا تھا، کہ ترلو چن کیلئے میدان صاف ہوجاتا، خاص طور پر نجن اس کے راستے میں ایک روڑا ہی نہیں، بہت بڑا گھنگھرا تھا چناچہ جب کبھی کرپال کور اس کی بات ہوتی تو وہ اسے نرنجن سنگھ کے بجائے کھنگر سنگھ کہتا۔
صبح کی ہوا دھیرے دھیرے بہہ رہی تھی۔۔۔۔ ترلو چن کا کیسوں سے بے نیاز سر بڑی خوشگوار ٹھنڈک محسوس کر رہا تھا مگر اس کی زندگی میں داخل ہوئی تھی، وہ یوں تو ہے کئے کھنگھر سنگھ کی بہن تھی، مگر بہت ہی نرم، نازک لچکیلی تھی، اس نے دیہات میں پرورش پائی تھی، وہاں کی کئی گرمیاں سردیاں دیکھیں تھیں، مگر اس میں وہ سختی، وہ گھٹاؤ، وہ مردانہ پن، نہیں تھا، جو دیہات کی عام سکھ لڑکیوں میں ہوتا ہے، جنہیں کڑی سے کڑی مشقت کرنے پڑتی ہے۔
اس کے نقش پتلے پتلے تھے، جیسے ابھی نامکمل ہیں، چھوٹی چھوٹی چھاتیاں تھیں جن پربالائیوں کی چند اور تہیں چڑھنے کی ضرورت تھی، عام سکھ لڑکیوں کے مقابلے میں اس کا رنگ گورا تھا مگر کورے لٹھے کی طرح اور بدن چکنا تھا، جس طرح مرسی رائنز کپڑے کی سطح ہوتی ہے، بے حد شرمیلی تھی۔
ترلو چن اسی کے گاؤں کا تھا، مگر زیادہ دیر وہا رہا نہیں تھا، پرائمری سے نکل کر جب وہ شہر کے ہائی اسکول میں گیا تو بس پھر وہیں کا ہو گیا، اسکول سے فارغ ہوکر کالج کی تعلیم شروع ہوگئی، اس دوران میں کئی مرتبہ لاتعداد مرتبہ اپنے گاؤں گیا، مگر اس نے کرپال کور کے ناک کی کسی لڑکی کا نام تک نہ سنا شاید اس لئے کہ ہر بار اس افرا تفری میں رہتا تھا کہ جلد از جلد واپس شہر پہنچے۔
کالج کا زمانہ بہت پیچھے رہ گیا تھا، اڈوانی چیمبرز کے ٹیریس اور کالج کی عمارت میں غالبا دس برس کا فاصلہ اور یہ فاصلہ ترلو چن کی زندگی کے عجیب و غریب واقعات سے پر تھا، برما، سنگا پور، ہانگ کانگ۔۔۔۔پھر بمبئی جہاں وہ چار برس سے مقیم تھا۔ان چار برسوں میں اس نے پہلی مرتبہ رات کو آسمان کی شکل دیکھی تھی، جو بری نہیں تھی۔۔۔۔خاکستری رنگ کے تنبو کی چھت میں ہزار ہادئیے، روشن تھے، اور ہوا ٹھنڈی اور ہلکی پھلکی تھی۔
کر پال کور کا سوچتے سوچتے، وہ موذیل کے متعلق سوچنے لگا، اس یہودی لڑکی کے بارے جو اڈوانی چیمبرز میں رہتی تھی، اس سے ترلو چن کو گوڈے گوڈے عشق ہوگیا تھا، ایسا عشق جو اس نے اپنی پینتیس برس کی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔
جس دن اس نے اڈوانی چیمبرز میں اپنے ایک عیسائی دوست کی معرفت دوسرے مالے پر فلیٹ لیا اسی دن اس کی مدبھیڑ موذیل سے ہوئی۔ گو پہلی نظر دیکھنے پر اسے خوفناک دیوانی معلوم ہوئی، کٹے ہوئے بھورے بال، اس کے پریشان تھے، بے حد پریشان، ہونٹوں پر لپ اسٹک یوں جمی جیسے گاڑھا خون اور وہ بھی جگہ جگہ سے چیختی ہوئی تھی، ڈھیلا ڈھالا لمبا سفید چغہ پہنے تھی، جس کے کھلے گریباں سے اس کی نیل پڑی بڑی بڑی چھاتیا چوتھائی کے قریب نظر آرہی تھی، بانہیں جو کہ ننگی تھیں، مہین مہین بالوں سے اٹی ہوئی تھیں، جیسے وہ ابھی ابھی کسی سیلون سے بال کٹوا کر آئی ہے، اور ان کی نھنی نھنی ہوائیاں ان پر جم گئی ہیں۔
ہونٹ اتنے موٹے نہیں تھے مگر گہرے عنابی رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس انداز سے لگائی گئی تھی، کہ وہ موٹے اور بھینسے کے گوشت کے ٹکڑے معلوم ہوتے تھے۔
ترلو چن کا فلیٹ اس کے فلیٹ کے بالکل سامنے تھا بیچ میں ایک تنگ گلی تھی، بہت ہی تنگ، جب ترلو چن اپنے فلیٹ میں داخل ہونے کیلئے آگے بڑھا تو موذیل باھر آگئی، کھڑاؤں پہنے تھی، ترلو چن ان کی آواز سن کر رک گیا، موذیل نے اپنے پریشان بالوں کی چقوں مین سے بڑی بڑی آنکھوں سے ترلو چن کی طرف دیکھا اور ہنسی۔۔۔۔۔۔ترلو چن بوکھلا گیا، جیب سے چابی نکال کر وہ جلدی سے دروازے کی جانب بڑھا، موذیل کی ایک کھڑاؤں سیمنٹ کے چکنے فرش پر پھسلی اور اس کے اوپر آرہی۔
جب ترلو چن سنبھلا تو موذیل اس کے اوپر تھی، کچھ اس طرح کہ اس کا لمبا چغہ اوپر چڑھ گیا تھا اور اس کی دو ننگی، بڑی تگڑی ٹانگیں اس کے ادھر ادھر تھیں، اور جب ترلو چن نے اٹھنے کی کوشش کی تو بوکھلاہٹ میں کچھ اس طرح موذیل۔۔۔۔۔ساری موذیل سے الجھا جیسے وہ صابن کی طرح اس کے سارے بدن پر پھر گیا ہے۔جب ترلو چن نے ہانپتے ہوئے مناسب و موزوں الفاظ میں اس سے معافی مانگی، موذیل نے اپنا لبادھ ٹھیک کیا اور مسکرادی یہ کھڑاؤں ایک دم کنڈم چیز ہے، اور وہ اتری ہوئی کھڑاؤں میں اپنا انگوٹھا اور اس کے ساتھ والی انگلی پھنساتی کوریڈور سے باہر چلی گئی۔
تر لو چن کا خیال تھا کہ موذیل سے دوستی پیدا کرنا شاید مشکل ہو لیکن وہ بہت ہی تھوڑے عرصے میں اس سے گھل مل گئی، لیکن ایک بات تھی کہ وہ بہت خود سر تھی، وہ ترلو چن کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی تھی، اس سے کھاتی تھی، اس سے پیتی تھی، اس کے ساتھ سینما جاتی تھی، سارا سارا دن اس کے ساتھ جو ہو پر نہاتی تھی، لیکن جب وہ بانہوں اور ہونٹوں سے آگے بڑھنا چاہتا تو اسے ڈانٹ دیتی، کچھ اس طور پر سے گھر کتی کہ اس کے سارے ولولے اس کی داڑھی اور مونچھو میں چکر کاٹتے رہ جاتے۔
ترلو چن کو پہلے کسی کے ساتھ محبت نہیں ہوئی تھی، لاہور میں، برما، سنگاپور میں وہ لڑکیاں کچھ عرصے کے لئے خریدچکا تھا، اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ بمبئے پہنچتے ہی وہ ایک نہایت الہڑ قسم کی یہودی لڑکی کے عشق میں گوڈے گوڈے دھنس جائے گا، وہ اس سے کچھ عجیب قسم کی بے اعتنائی اور بے التفاتی برتتی تھی، اس کے کہنے پر فورا سج بن کر سینماجانے پر تیار ہوجاتی تھی، مگر جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتے تو ادھر ادھر نگاہیں دوڑانا شروع کر دیتی، کوئی اس کا آشنا نکل آئے تو اس سے ہاتھ ہلاتی اور ترلو چن سے اجازت لئے بغیر اس کے پہلو میں جا بیٹھتی۔
ہوٹل میں بیٹھے ہیں ترلو چن نے خاص طور پرموذیل کیلئے پر تکلف کھانے منگوائے ہیں، مگر اس کو کوئی اپنا دوست نظر آ گیا اور وہ نوالہ چھوڑ کر پاس جا بیٹھتی ہے اور ترلو چن کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔
ترلو چن بعض اوقات بھناجاتا تھا، کیونکہ وہ اسے قطعی طور پر چھوڑ کر اپنے ان پرانے دوستوں اور شناساؤں کے ساتھ چلی جاتی تھی، اور کئ کئی دن اس سے ملاقات نہ کرتی تھی، کبھی سر درد کا بہانہ، کبھی پیٹ کی خرابی، جس کے متعلق ترلو چن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ فولاد کی طرح سخت ہے اور کبھی خراب نہیں ہوسکتا۔جب اس سے ملاقات ہوتی ہے تو اس سے کہتی ہے، تم سکھ ہو۔۔۔۔۔یہ نازک باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتیں۔
ترلوچن بھن جاتا اور پوچھتا کون سی نازک باتیں۔۔۔تمہارے پرانے یاروں کی؟
موذیل دونوں ہاتھ جوڑے چکلے کولہوں پر لٹکا کر اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کر دیتی اور کہتی یہ تم مجھے ان کے طعنے کیا دیتے رہتےہو۔۔۔۔۔ہاں وہ میرے یار ہیں۔۔۔۔اور مجھے اچھے لگتے ہیں، تم جلتے ہو تو جلتے رہو۔
ترلو چن بڑے وکیلانہ انداز میں پوچھتا ہے اس طرح تمہاری میری کس طرح نبھے گی۔
موذیل زورکا قہقہہ لگاتی ہے، تم سچ مچ سکھ ہو۔۔۔۔ایڈیٹ تم سے کس نے کہا کہ میرے ساتھ نبھاؤ۔۔۔۔۔اگر نبھانے کی بات ہے تو جاؤ اپنے وطن میں کسی سکھنی سے شادی کر لو۔۔۔۔میرے ساتھ تو اسی طرح چلے گا۔
ترلو چن نرم ہو جاتا، دراصل موذیل اس کی زبردست کمزور ی بن گئی تھی، وہ ہر حالت میں اس کی قربت کا خواہشمند تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ موذیل کی وجہ سے اس کی اکثر توہین ہوتی تھی، معمولی کرسٹان لونڈوں کے سامنے جن کی حقیقت ہی نہیں تھی، اسے خفیف ہونا پڑتا تھا، مگر دل سے مجبو رہو کر یہ سب کچھ برداشت کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔
عام طور پر توہین اور ہتک کا رد عمل انتقام ہوتا ہے، مگر ترلو چن کے معاملے میں ایسا نہیں تھا، اس نے اپنے دل و دماغ کی بہت سے آنکھیں میچ لی تھی، اور کئی کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی، اس کو موذیل پسند تھی۔۔۔۔ پسند ہی نہیں جیسا کہ وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا گوڈے گوڈے اس کے عشق میں دھنس گیا تھا، اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا اس کے جسم کا جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے وہ بھی اس عشق کے دلدل میں چلا جائے اور قصہ ختم ہو۔
دو برس تک وہ اسی طرح خوار ہوتا رہا، لیکن ثابت قدم رہا، آخر ایک روز جب کہ موذیل موج میں تھی، اپنے بازؤں میں سمیٹ کر پوچھا موذیل کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو۔موذیل اس کے بازؤں سے جدا ہوگئی اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے فراک کا گھیرا دیکھنے لگی پھر اس نے اپنی موٹی موٹی یہودی آنکھیں اٹھائیں اور گھنی پلکیں چھپکا کر کہا، میں سکھ سے محبت نہیں کرسکتی ۔
ترلو چن نے ایسا محسوس کیا کہ پگڑی کے نیچے اس کے کیسوں میں کسی نے دہکتی ہوئی چنگاریاں رکھ دی ہیں، اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔۔۔۔۔موذیل تم ہمیشہ میرا مذاق اڑاتی ہو۔۔۔۔یہ میرا مذاق نہیں، میری محبت کا مذاق ہے۔
موذیل اٹھی اور اس نے بھورے ترشے ہوئے بالوں کو ایک دلفیرب جھٹکا دیا، تم شیو کرا لو اور اپنے سر کے بال کھلے چھوڑ دو۔۔۔تو میں شرط لگاسکتی ہو ں کہ کئ لونڈے تمہیں آنکھ ماریں گے۔۔۔۔تم خوبصورت ہو۔
ترلو چن کے کیسوں میں مزید چنگاریاں پڑ گئیں، اس نے آگے بڑھ کر زور سے موذیل کو اپنی طرف گھسٹیا اور اس کے عنابی ہونٹوں میں اپنے مونچھوں بھرے ہونٹ پیوست کردئیے۔
موذیل نے ایک دم پھوں پھوں کی اوراس کی گرفت سے علیحدہ ہوگئی، میں صبح اپنے دانتوں کو برش کرچکی ہوں، تم تکلیف نہ کرو۔
ترلوچن چلایا، موذیل۔
موذیل وینٹی بیگ سے ننھا سا آئینہ نکال کر اپنے ہونٹ دیکھنے لگی جس پر لگی ہوئی گاڑھی لپ اسٹک پر خراشیں آگئی تھیں، خدا قسم ۔۔۔تم اپنی داڑھی اور مونچھوں کا صیح استعمال نہیں کرسکتے ۔۔۔۔۔ان کے بال ایسے اچھے ہیں کہ میرا نیوی بلو اسکرٹ بہت اچھی طرح صاف کرسکتے ہیں،۔۔۔۔بس تھوڑا سا پیٹرول لگانے کی ضرورت ہوگی۔







ترلو چن غصے کی اس انتہا تک پہنچ چکا تھا، جہاں وہ بالکل ٹھنڈا ہوگیا تھا، آرام سے صوفے پر بیٹھ گیا، موذیل بھی آگئی اور اس نے ترلو چن کی داڑھی کھولنی شروع کردی۔۔۔۔اس میں جو پنیں لگی تھیں وہ اس نے ایک ایک کرکےاپنے دانتوں تلے دبالیں۔
ترلوچن خوبصورت تھا، جب اس کے داڑھی مونچھ نہیں اگی تھی تو واقعی لوگ اس کے کھلے گیسؤوں کے ساتھ دیکھ کر دھوکا کھاجاتے تھے، کہ وہ کوئی کم عمر خوبصورت لڑکی ہے۔مگر بالوں کے اس انبار نے اب اس کے تمام خدوخال جھاڑیوں کے مانند اندر چھپا لئے تھے، اس کو اس کا احساس تھا، مگر وہ ایک اطاعت شعار بردار لڑکا تھا، اس کے دل میں مذہب کا احترام تھا، وہ نہیں چاہتا تھا، کہ ان چیزوں کو اپنے وجود سے الگ کر دے، جن سے اس کے مذہب کی ظاہری تکمیل ہوتی تھی۔
جب داڑھی پوری کھل گئی اور اسکے سینے پر لٹکنے لگی تو اس نے موذیل سے پوچھا ، یہ تم کیا کر رہی ہو؟
دانتوں میں پنیں دبائے وہ مسکرائی،تمہارے بال بہت ملائم ہیں۔۔۔۔۔میرا اندازہ غلط تھا کہ ان سے میرا نیوی بلو اسکرٹ صاف ہوجائے گا تر لوچ تم یہ مجھے دے دو میں انہیں گوندھ کر اپنے لئے ایک فسٹ کلاس بٹوا بناؤں گئی۔
اب تو ترلو چن کی داڑھی میں چنگاریاں پھڑکنے لگیں، وہ بڑی سنجیدگی سے موذیل سے مخاطب ہوا، میں نے آج تک تمہارے مذہب کا مذاق اڑایا ہے تم کیوں اڑاتی ہو۔۔۔دیکھو کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اچھا نہیں ہوتا۔۔۔میں یہ کبھی برداشت نہ کرتا مگر صرف اس لئے کرتا ہوں کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔۔۔۔کیا تمہیں اس کا پتہ نہیں۔
موذیل نے ترلو چن کی داڑھی سے کھیلنا بند کردیا، معلوم ہے۔
پھرترلو چن نے اپنی داڑھی کے بال بڑی صفائی سے تہہ کئے اور موذیل کے دانتوں سے پنیں نکال لیں، تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میری محبت بکواس نہیں۔۔۔میں تم سےشادی کرنا چاہتا ہوں۔
مجھے معلوم ہے، بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر وہ اٹھی اور دیوار سے لٹکی ہوئی تصویر کی طرف دیکھنے لگی، میں بھی قریب یہی فیصلہ کرچکی ھو کہ تم سے شادی کروں گی۔
ترلو چن اچھل پڑا سچ؟
موذیل کے عنابی ہونٹ موٹی مسکراہٹ کے ساتھ کھلے اور اس کے سفید مخبوط دانت ایک لحظے کیلئے چمکے۔ہاں۔
ترلو چن نے اپنی نصف لپٹی ہوئی داڑھی ہی سے اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھییچ لیا۔
تو تو کب؟
موذیل الگ ہٹ گئی ، جب۔۔۔۔۔تم اپنے بال کٹوا دو گے جب۔
ترلو چن اس وقت جو ہو سو ہو تھا، اس نے کچھ نہ سوچا اور کہہ دیا میں کل ہی کٹوادوں گا۔
موذیل فرش پر ٹیپ ڈانس کرنے لگی، تم بکواس کرتے ہو ترلوچ۔۔۔۔۔تم میں اتنی ہمت نہیں ہے۔
اس نے ترلو چن کے دل و دماغ سے مذہب کے رہے سہے خیال کو نکال باہر پھینکا، تم دیکھ لو گی۔
اور وہ تیزی سے آگے بڑھی ترلوچ کی مونچھوں کو چوما اور پھو پھوں کرتی باہر نکل گئی۔
ترلو چن نے رات بھر کیا سوچا۔۔۔وہ کن کن اذیتوں سے گزرا، اس کا تذکرہ فضول ہے اس لئے کہ دوسرے روز اس نے فورٹ میں اپنے کیس کٹوادئیے اور داڑھی بھی منڈوادی۔۔۔۔یہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ آنکھیں میچے رہا، جب سارا معاملہ صاف ہوگیا تو اس نے آنکھیں کھول لیں اور دیر تک اپنی شکل آئینے میں دیکھتا رہا، جس میں بمبئی کی حسین سے حسین لڑکی بھی کچھ دیر کیلئے غور کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
ترلو چن وہی عجیب و غریب ٹھنڈک محسوس کرنے لگا تھا، جو سیلون سے باہر نکل کر اس کو لگی تھی، اس نے ٹیرس پر تیز تیز چلنا شروع کردیا، جہاں ٹینکوں اور نلوں کا ایک ہجوم تھا وہ چاہتا تھا کہ اس داستان کا بقایا حصہ اس کے دماغ میں نہ آئے مگر وہ بن نہ رہا۔
بال کٹوا کر وہ پہلے دن گھر سے باہر نہیں نکلا تھا، اس نے اپنے نوکر کے ہاتھ دوسرے روز چٹ موذیل کی بھیجی کہ اس کی طبعیت ناساز ہے تھوڑی دیر کیلئے آجائے، موذیل آئی ترلو چن کو بالوں کے بغیر دیکھ کر پہلے وہ ایک لحظے کیلئے ٹھٹکی پھر مائی ڈارلنگ ترلوچن کے صاف اور ملائم گالوں پر ہاتھ پھیرا اس کے چھوٹے انگریزی وضع کے کٹے ہوئے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کی اور عربی زبان مین نعرے مارتی رہی، اس نے اس قدر شور مچایا کہ اس کی ناک سے پانی بہنے لگا۔۔۔۔۔۔موذیل نے جب اسے محسوس کیا تو اپنی اسکرٹ کا گھیرا اٹھایا اور اسے پونچھنا شروع کردیا۔۔۔۔ ترلو چن شرما گیا، اس نے اسکرٹ نیچی کی اور سرزنش کے طور پراس سے کہا، نیچے کچھ پہن تو لیا کرو۔
موذیل پر اس کا کچھ اثر نہ ھوا، باسی اور جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی لپ اسٹک لگے ہونٹوں سے مسکرا کر اس نے صرف اتنا ہی کہا مجھے بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے۔۔۔۔۔ ایسے ہی چلتا ہے۔
ترلوچن کو وہ پہلا دن یاد آگیا جب وہ موذیل دونوں ٹکرا گئے اور آپس میں عجیب طرح گڈ مڈ ہوگئے تھے، مسکرا کر اس نے موذیل کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا، شادی کل ہوگی؟
ضرور، موذیل نے ترلو چن کی ملائم تھوڑی پر اپنے ہاتھ کی پشت پھیری۔
طے یہ ہوا کہ شادی پونے میں ہو، چونکہ سول میرج تھی، اس لئے ان کو دس پندرہ دن کا نوٹس دینا تھا، عدالتی کارروائی تھی، اس لئے مناسب یہی خیال کیا گیا کہ پونہ بہتر ہے، پاس ہے اور ترلو چن کے وہاں کئی دوست بھی ہیں، دوسرے روز انہیں پروگرام کے مطابق پونہ روانہ ہوجاتا تھا۔
موذیل فورٹ کے ایک اسٹور میں سیلز گرل تھی، اس سے کچھ فاصلے پر ٹیکسی اسٹینڈ تھا، بس یہیں موذیل نے اس کو انتظار کرنے کیلئے کہا تھا، ۔۔۔ترلوچن وقت مقررہ پر وہاں پہنچا، ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرتا رہا، مگر وہ نہ آئی، دوسرے روز اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ جس نے تازہ تازہ موٹر خریدی ہے، دیولالی چلی گئی ہے اور ایک غیر معین عرصے کیلئے وہیں رہے گی۔
ترلوچن پر کیا گزری؟۔۔۔ایک بڑی لمبی کہانی ہے، قصہ مختصر یہ ہے کہ اس نے جی کڑاکیا اور اس کو بھول گیا۔۔۔۔ اتنے میں اس کی ملاقات کرپال کور سے ہوگئی اور وہ اس سے محبت کرنے لگا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس نے محسوس کیا کہ موذیل بہت واہیات لڑکی تھی، جس کے دل کے ساتھ پتھر لگے ہوئے ہیں اور جو چڑوں کی مانند ایک جگہ سے دوسری جگہ پھدکتا رہتا تھا، اس احساس سے اسکو گونہ تسکین ہوئی تھی کہ وہ موذیل سے شادی کرنے کی غلطی نہ کر بیٹھا تھا۔لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی موذیل کی یاد میں ایک چٹکی کے مانند اس کے دل کو پکڑ لیتی تھی اور پھر چھوڑ کر کد کڑے لگاتی غائب ہوجاتی تھی۔
وہ بے حیا تھی۔۔۔۔۔بے مروت تھی، اس کو کسی کے جذبات کا پاس نہیں تھا ترلو چن کو پسند تھی، اس لئے کبھی کبھی اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا، کہ وہ دیولالی میں اتنے عرصے سے کیا کر رہی ہے،، اس آدمی کے ساتھ ہے جس نے نئی نئی کار خریدی تھی، یا اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلی گئی ہے، اس کو اس خیال سے سخت کوفت ہوتی تھی کہ وہ اس کے سوا کسی اور کے پاس ہوگی، حالانکہ اس کو موذیل کے کردار کا بخوبی علم تھا۔
وہ اس پر سینکڑوں نہیں ہزاروں روپے خرچ کر چکا تھا، لیکن اپنی مرضی سے، ورنہ موذیل مہنگی نہیں تھی، اس کو بہت سسی قسم کی چیزیں پسند آتی تھی، ایک مرتبہ ترلو چن نے اسے سونے کی ٹوپس دینے کا ارادہ کیا جو اسے بہت پسند تھے مگر اسی دکان میں موذیل جھوٹے اور بھڑکیلے اور بہت سستے آویزوں پر مرمٹی اور سونے کے ٹوپس چھوڑ کر ترلو چن سے منتیں کرنے لگی کہ وہ انہیں خرید دے۔
ترلو چن اب تک نہ سمجھ سکا کہ موذیل کس قماش کی لڑکی ہے، کس آب و گل سے بنی ہے، وہ گھنٹوں اس کے ساتھ لیٹی رہتی تھی اور اس کو چومنے کی اجازت دیتی تھی، وہ سارا کا سارا صابن کی مانند اس کے جسم پر پھر جاتا تھا، مگر وہ اسکو اس سے آگے ایک انچ نہ بڑھنے دیتی تھی، اس کو چرانے کی خاطر اتنا کہہ دیتی کہ تم سکھ ہو۔۔۔۔مجھے تم سے نفرت ہے۔
ترلو چن اچھی طرح محسوس کرتا تھا، کہ موذیل کو اس سے نفرت نہیں ہے،اگر ایسا ہوتا تو وہ اس سے کبھی نہ ملتی، برداشت کا مادہ اس میں رتی بھر نہیں تھا، وہ کبھی کبھار دو برس تک اس کی صحبت میں نہ گزارتی، دو ٹک فیصلہ کردیتی، انڈروئیر اس کو ناپسند تھے اس لئے کہ ان سے اس کو الجھن ہوتی تھی، ترلو چن نے کئی بار اسکو ان کی اشد ضرورت سے آگاہ کیا، اسکو شرم و حیا کا واسطہ دیا، مگر اس اس نے یہ چیز کبھی نہ پہنی۔
ترلو چن جب اس سے حیا کی بات کرتا تھا تو وہ چڑ جاتی تھی، یہ حیا ویا کیا بکواس ہے۔۔۔اگر تمہیں اس کا کچھ خیال ہے تو آنکھیں بند کرلیا کرو۔۔۔۔تم مجھے یہ بتاؤ کہ کون سا لباس ہے جس میں آدمی ننگا نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔۔یا جس میں سے تمہاری نگاہیں پار نہیں ہوسکتیں۔۔۔۔۔۔مجھ سے ایسی بکواس نہ کیا کرو۔۔۔۔۔تم سکھ ہو۔۔۔۔۔مجھے معلوم ہے کہ تم پتلون کے نیچے ایک سلی انڈروئیر پہنتے ہو جو نیکر سے ملتاجلتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ بھی تمہاری داڑھی اور سر کے بالوں کی طرح تمہارے مذہب میں شامل ہے۔۔۔۔۔شرم آنی چاہئیے۔۔۔۔۔۔اتنے بڑے ہوگئے اور ابھی تک یہی سمجھتے ہو کہ تمہارا مذہب انڈروئیر میں چھپا بیٹھا ہے۔
ترلو چن کو شروع شروع میں ایسی باتیں سن کر غصہ آیا تھا مگر بعد میں غور و فکر کرنے پر وہ کبھی کبھی لڑھک جاتا تھا اور سوچتا تھا کہ موذیل کی باتیں شاید نادرست نہیں اور جب اس نے اپنے کیسوں اور داڑھی کا صفایا کرادیا تھا تو اسے قطعی طور پر ایسا محسوس ہوا کہ وہ بیکار اتنے دن بالوں کا بوجھ اٹھائے پھرا جس کا کچھ مطلب نہیں تھا۔
پانی کی ٹنکی کے پاس پہنچ کر ترلو چن رک گیا، موذیل کو ایک بڑی موٹی گالی دے کر اس نے اس کے متعلق سوچنا بند کردیا،۔۔۔کرپال کور، ایک پاکیزہ لڑکی جس سے اس کو محبت ہوئی تھی، خطرے میں تھی، وہ ایسے محلے میں تھی، جس میں کٹر قسم کے مسلمان رہتے تھے اور وہاں دو تین وارداتیں بھی ہوچکیں تھیں۔۔۔۔۔لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس محلے میں اڑتالیس گھنٹے کا کرفیو تھا، مگر اڑتالیس گھنٹے کے کرفیو کی کون پروا کرتا ہے، اس چالی کے مسلمان اگر چاہتے تو اندر ہی اندر کرپال کا، اس کی ماں کا، اس کے باپ کا بڑی آسانی کے ساتھ صفایا کرسکتے تھے۔
ترلو چن سوچتا سوچتا پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گیا، اس کےسر کے بال اب کافی لمبے ہو گئے تھے، اس کو یقین تھا کہ ایک برس کے اندر اندر یہ پورے کیسیوں میں تبدیل ہو جائیں گے، اس کی داڑھی تیزی سے بڑھی تھی مگر اسے بڑھانا نہیں چاہتا تھا، فورٹ میں ایک باربر تھا، وہ اس صفائی سے اسے تراشتا تھا، کہ ترشی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔۔۔۔
اس نے اپنے لمبے اور ملائم بالوں میں انگلیاں پھیریں اور ایک سرد آہ بھری۔۔۔اٹھنے کا ارادہ کرہی رہا تھا۔۔۔ کہ اسے کھڑاؤں کی کرخت آواز سنائی دی، اس نے سوچا کون ہو سکتا ہے؟۔۔بلڈنگ میں کئی یہودی عورتیں تھیں، جو کہ سب کھڑاؤں پہنتی تھیں۔۔۔۔۔۔آواز قریب آتی گئی، یک لخت اس نے دوسری ٹنکی کے پاس موذیل کو دیکھا۔جو یہودیوں کی خاص قطع کا ڈھیلا ڈھالا کرتہ پہنے بڑے زور کی انگڑائی لے رہی تھی۔۔۔۔۔اس زور کی کہ ترلو چن کو محسوس ہوا کہ آس پاس کی ہوا چٹخ جائے گی۔
ترلو چن پانی کے نل پر سے اٹھا، اس نے سوچا یہ ایکاایک کہاں سے نمودار ہوگئی۔۔۔۔اور اس وقت ٹیرس پر کیا کرنے آئی ہے؟
موذیل نے ایک اور انگڑائی لی۔۔۔۔۔۔۔اب ترلو چن کی ہڈیاں چٹخنے لگیں۔
ڈھیلے ڈھالے کرتے میں اس کی مضبوط چھاتیاں دھڑکیں۔۔۔۔۔۔۔ترلو چن کی آنکھوں کے سامنے کئ گول گول اور چپٹے چپٹے نیل ابھر آئے، وہ زور سے کھانسا ، موذیل نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا، اس کا رد عمل بالکل خفیف تھا، کھڑاؤں گھسٹتی وہ اس کے پاس آئی اور اس کی نھنی منی داڑھی دیکھنے لگی، تم پھر سکھ بن گئے تر لو چ؟
داڑھی کے بال ترلوچن کو چبھنے لگے۔
موذیل نے آگے بڑھ کر اس کی ٹھوڑی کے ساتھ اپنے ہاتھ کی پشت رگڑی اور مسکرا کر کہا، اب یہ برش اس قابل ہے کہ میری نیوی بلو اسکرٹ صاف کرسکے۔۔۔مگر وہ تو وہیں دیوالالی میں رہ گئی ہے۔
ترلوچ خاموش رہا۔
موذیل نے اس کے بازو کی چٹکی لی بولتے کیوں نہیں سردار صاحب؟
ترلوچن اپنی پچھلی بے وقوفیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہتا تھا، تاہم اس نے صبح کے ہلکے اندھیرے میں موذیل کے چہرے کو غور سے دیکھا۔۔۔۔کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی، ایک طرح وہ پہلے سے کچھ کمزور نظر آتی تھی، ترلوچن نے اس سے پوچھا، بیمار رہی ہو؟
نہیں موذیل نے اپنے تراشے ہوئے بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔
پہلے سے کمزور دکھائی دیتی ہو؟
میں ڈائیٹنگ کر رہی ہوں، موذیل پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گئی اور کھڑاؤں فرش کے ساتھ بجانے لگی، تم گویا کہ ۔۔۔۔اب پھر۔۔۔نئے سرے سے سکھ بن رہے ہو۔


====================================

1 comment:

z

z