مدیر: ثمینہ راجہ

Thursday, December 10, 2009

Wali Dakni ولی دکنی

*
*
*
ولی کے نام اور وطن کے بارے میں اختلاف ہے۔ اہل گجرات انہیں گجرات کاباشندہ ثابت کرتے ہیں اور اہل دکن کی تحقیق کے مطابق ان کا وطن اورنگ آباد دکن تھا۔ ولی کے اشعار سے دکنی ہونا ثابت ہے۔ ولی اللہ ولی ، سلطان عبداللہ قلی، قطب شاہوں کے آٹھویں فرماں روا کے عہد میں 1668ءمیں اورنگ آ باد میں پیدا ہوئے ۔ اس کے بعد حصول علم کے لیے احمد آباد آگئے۔ جو اس زمانے میں علم و فن کا مرکز تھا۔ وہاں حضرت شاہ وجیہہ الدین کی خانقاہ کے مدرسے میں داخل ہو گئے۔ ولی کی عمر کا بیشتر حصہ احمد آباد میں گزرا۔ اس شہر کے فراق میں انہوں نے ایک پردرد قطعہ بھی لکھا۔ ولی نے گجرات ، سورت اور دہلی کا سفر بھی کیا۔ اس کے متعلق اشارے ان کے کلام میں موجود ہیں۔

دہلی میں ولی کی سعد اللہ گلشن سے ملاقات ہوئی۔ تو وہ ان کا کلام دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور مشورہ دیا کہ ان تمام مضامین کو جو فارسی میں بیکار پڑے ہیں۔ ریختہ کی زبان میں کام میں لانا چاہیے، تاہم یہ بات متنازعہ ہے اور اردو نقاد اور محقق شمس الرحمٰن فاروقی کا خیال ہے (کتاب: اردو کا ابتدائی زمانہ) کہ محض دہلی والوں کی امپیریل ازم کا نتیجہ ہے کیوں کہ اردو کے اولین تذکرہ نگار میر تقی میر اور قائم چاندپوری یہ بات تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے کہ کوئی خارجی آ کے دہلی میں اردو غزل کا آغاز کرے۔ اس لیے سعداللہ گلشن والا واقعہ ایجاد کیا گیا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ اصل میں الٹا دہلی والوں نے (یعنی سعداللہ گلشن نے) ولی کو شاعری سکھائی تھی۔

قائم چاند پوری نے اپنے تذکرے نکاتِ سخن میں لکھا ہے کہ ولی نے سعد کے مشورے پر عمل کیا اور دوسری مرتبہ دہلی گئے تو ان کے کلام کی خوب قدر ہوئی اور یہاں تک شہرت ہوئی کی امراءکی محفلوں میں اور جلسوں اور کوچہ و بازار میں ولی کے اشعار لوگوں کی زبان پر تھے۔

ولی کی تاریخ وفات بھی بے حد متنازعہ ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی تحقیق کے مطابق وہ 1730 کے بعد فوت ہوئے، تاہم زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ ولی 1708 کے لگ بھگ فوت ہوئے تھے۔





میں عاشقی میں تب سوں افسانہ ہو رہا ہوں
تیری نگہ کا جب سوں دیوانہ ہو رہا ہوں

ای آشنا کرم سوں یک بار آدرس دے
تجھھ باج سب جہاں سوں بیگانہ ہو رہا ہوں

باتاں لگن کی مت پوچھھ اے شمع بزم خوبی
مدت سے تجھھ جھلک کا پروانہ ہو رہا ہوں

شاید وہ گنج خوبی آوے کسو طرف سے
اس واسطے سراپا ویرانہ ہو رہا ہوں

سوداےَ زلف خوباں رکھتا ہوں دل میں دایمَ
زنجیر عاشقی کا دیوانہ ہو رہا ہوں

بر جا ہے گر سنوں نیئں ناصح تیری نصیحت
میں جام عاشقی پی، مستانہ ہو رہا ہوں

کس سوں ولی اُپس کا احوال جا کہوں میں
سر تا قدم میں غم سوں دیوانہ ہو رہا ہوں

===================================

1 comment:

  1. جناب بہت مفید معلومات ہیں: شکریہ

    ReplyDelete

z

z