مدیر: ثمینہ راجہ

Thursday, December 10, 2009

قرۃ العین حیدر




نظّارہ درمیاں ہے
-----------------

تارا بائ کی آنکھیں تاروں ایسی روشن ہیں اور وہ گرد وپیش کی ہر چیز کو حیرت سے تکتی ہے، دراصل تارا بائی کے چہرے پر آنکھیں ہی آنکھیں ہیں، وہ قحط کی سوکھی ماری لڑکی ہے جسے بیگم الماس خورشید کے ہاں کام کرتے ہوئے صرف چند ماہ ہوئے ہیں اور وہ اپنی مالکن کے شان دار فلیٹ کے سازو سامان کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی رہتی ہے، کہ ایسا عیش و عشرت اس سے پہلے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا تھا، وہ گور کھپور کے ایک گاؤں کی بال ودھوا ہے جس کے سسر اور ماں باپ کے مرنے کے بعد اس کے ماما نے جو ممبئی میں دودھ والا بھیا ہے، اسے یہاں بلا بھیجا تھا۔

الماس بیگم کے بیاہ کو ابھی تین چار مہینے ہی گزرے ہیں ان کی منگلورین آیا جو ان کے ساتھ آئی تھی، ملک چلی گئی تو ان کے بے حد منتظم خالہ بیگم عثمانی نے جو ایک نامور سوشل ورکر ہیں ، ایمپلائمنٹ ایکسچینچ فون کیا اور تارا بائی پٹ بیجنے کی طرح آنکھیں جھپکاتی کمباہل کے اسکائی اسکریپر گل نسترن کی دسویں منزل پر آن پہنچیں۔ الماس بیگم نے انکو ہر طرح قابل اطمینان پایا، مگر دوسرے ملازموں نے ان کو تارا بائی کہہ کر پکارا وہ بہت بگڑیں، ہم کوئی پتریا ہیں؟ انہوں نے احتجاج کیا، مگر اب ان کو تارا بائی کے بجائے باراوئی کہلانے کی عادت ہوگئی ہے، اور وہ چپ چاپ کام میں مصروف رہتی ہیں اور بیگم صاحب اور ان کے صاحب کو آنکھیں جھپکا جھپکا کر دیکھتی ہیں۔

الماس بیگم کا بس چلے تو وہ اپنے شوہر کو ایک لمحے کیلئے اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں اور وہ جوان جہاں آیا کو ملازم رکھنے کی ہر گز قائل نہیں، مگر تارا بائی جیسی بے جان اور سگھڑ خادمہ کو دیکھ کر انہوں نے اپنی تجربہ کار خالہ کے انتخاب پر اعتراض نہیں کیا۔

تارابائی صبح کو بیڈ روم میں چائے لاتی ہے بڑی عقیدت سے صاحب کے جوتوں پر پالش اور کپڑوں پر استری کرتی ہے، ان کے شیو کا پانی لگاتی ہے ، جھاڑو پوچھا کرتے وقت وہ بڑی حیرت سے ان خوبصورت چیزوں پر ہاتھ پھیرتی ہے، جو صاحب اپنے ساتھ پیرس سے لائے ہیں، ان کا وائلن وارڈروب کے اوپر رکھا ہے، جب پہلی بار تارا بائی نے بیڈروم کی صفائی کی تو وائلن پر بڑی دیر تک ہاتھ پھیرا، مگر پرسوں صبح حسب معمول جب وہ بڑی نفاست سے وائلن صاف کر رہی تھی تو نرم مزاج اور شریف صاحب اسی وقت کمرے میں آگئے اور اس پر برس پڑے کہ وائلن کو ہاتھ کیوں لگایا اور تارابائی کے ہاتھ سے چھین کر اسے الماری کے اوپر پٹخ دیا، تارابائی سہم گئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور صاحب ذرا شرمندہ سے ہوکر باہر برآمدے میں چلے گئے، جہاں بیگم صاحبہ چائے پی رہی تھی ویسے بیگم صاحبہ کی صبح ہئیر ڈریسر اور بیوٹی سلیون میں گذرتی ہے مینی کیور، پیڈی کیور، تاج نیشنل ایک سے ایک بڑھیا ساڑھیاں، درجنوں رنگ برنگے سینٹس، اور عطر کے ڈبے اور گہنے ان کی الماریوں میں پڑے ہیں۔ مگر تارا بائی سوچتی ہے، بھگوان نے میم صاحب کو دولت بھی، اجت بھی اور ایسا سندر پتی دیا، بس شکل دینے میں کنجوسی کر گئے۔

سنا ہے کہ صاحب اپنی خوبصورتی کی وجہ سے میم صاحبوں کی سوسائٹی میں بے حد مقبول تھے، مگر بیاہ کے بعد سے بیگم صاحبہ نے ان پر بہت سے پابندیاں لگادی ہی، دفتر جاتے ہیں تو دن میں کئی بار فون کرتی ہیں، شام کو کسی کام سے باہر جائیں تو بیگم صاحبہ کو پتہ رہتا ہے، کہ کہاں گئے ہیں اور ان جگہوں پر فون کرتی ہیں، شام کو سیر و تفریح اور ملنے ملانے کیلئے دونوں باہر جاتے ہیں تب بھی بیگم صاحب بڑی کڑی نگرانی رکھتی ہیں مجال ہے جو کسی دوسری لڑکی پر نظر ڈالیں، صاحب نے یہ سارے قاعدے قانون ہنسی خوشی قبول کر لئے ہیں، کیونکہ بیگم صاحبہ بہت امیر اور صاحب کی نوکری بھی ان کے دولت مند سسر نے دلوائی ہے، ورنہ بیاہ سے پہلے صاحب بہت غریب تھے اسکالر شپ پر انجنئیرنگ پڑھنے فرانس گئے تھے، واپس آئے تو روزگار نہیں ملا، پریشان حال گھوم رہے تھے جب ہی بیگم صاحبہ کے گھر والوں نے انہیں پھانس لیا، بڑے لوگوں کی دنیا کے عجیب قصے تارا بائی فلیٹ کے مستری باورچی اور دوسرے نوکروں سے سنتی اور اس کی آنکھیں اچھبنے سے کھلی رہتی ہیں، خورشید عالم بڑے اچھے اور وائلن نواز آدمی تھے، مگر جب سے بیاہ ہوا تو بیوی کی محبت میں ایسے کھوئے کہ وائلن کو ہاتھ نہیں لگایا، کیونکہ الماس بیگم کو اس ساز سے دلی نفرت تھی، خورشید عالم بیوی کے بے حد احسان مند ہیں کیونکہ اس شادی سے ان کی زندگی بدل گئی، اور احسان مندی ایسی شے ہے کہ انسان سنگیت کی قربانی بھی دے سکتا ہے، خورشید عالم شہر کی ایک خستہ عمارت میں پڑے تھے اور بسوں میں مارے مارے پھرتے تھے اب لکھ پتی کی حیثیت سے کمبالاہل میں فروکش ہیں۔ مرد کیلئے اس کا اقتصادی تحفظ غالباً سب سے بڑی چیز ہے۔

خورشید عالم اب وائلن کبھی نہیں بجائیں گے، یہ صرف ڈیڑھ سال پہلے کا ذکر ہے کہ الماس اپنے ملک التجار باپ کی عالی شان کوٹھی میں مالا بار بل پر رہتی تھی، وہ سوشل ورکر رہی تھی، اور عمر زیادہ ہوجانے کے کارن شادی کی امید سے دست بر دار ہوچکی تھی جب ایک دعوت میں ان کی ملاقات خورشید عالم سے ہوئی اور ان کی جہاں دیدہ خالہ بیگم عثمانی نے ممکنات بھانپ کر اپنے جاسوسوں کے ذریعہ معلومات فراہم کیں ، لڑکا یوپی کا ہے، یورپ سے لوٹ کر تلاش معاش میں سرگردان ہے مگر شادی پر تیار نہیں کیونکہ فرانس میں ایک لڑکی چھوڑ آیا ہے اور اس کی آمد کا منتظر ہے۔ بیگم عثمانی فورا پنی مہم پر جٹ گئیں، الماس کے والد نےاپنی ایک فرم میں خورشید عالم کو پندرہ سو روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا، الماس کی والد نے انہیں اپنے ہاں مدعو کیا اور الماس سے ملاقاتیں خود بخود شروع ہوگئیں، مگر پھر بھی لڑکے نے لڑکی کے سلسلے میں کسی گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا، دفتر سے لوٹ کر انہیں بیشتر وقت الماس کے ہاں گزارنا پڑتا اور اس لڑکی کی سطحی گفتگو سے اکتا کر اُس پر فضا بالکنی میں جا کر کھڑے ہوتے جس کا رخ سمندر کی طرف تھا، پھر وہ سوچتے ایک دن اس کا جہاز آکر اس ساحل پر لگے لگا، اور وہ اس میں سے اترے گی، اسے ہمراہ ہی آجانا چاہئیے تھا مگر پیرس میں کالج میں اس کا کام ختم نہیں ہوا تھا۔ اس کا جہاز ساحل سے آگے نکل گیا، وہ بالکنی کے جنگلے پر جھکے افق کو تکتے رہتے الماس اندر سے نکل کر شگفتگی سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھتی، " کیا سوچ رہے ہیں"۔ وہ ذرا جھینپ کر دیتے۔

رات کے کھانے پر الماس کے والد کے ساتھ ملکی سیاست سے وابستہ ہائی فنانس پر تبادلۂ خیالات کرنے کے بعد وہ تھکے ہارے اپنی جائے قیام پر پہنچتے اور وائلن نکال کر دھنیں بجانے لگتے، جو اس کی سنگت میں پیرس میں بجایا کرتے تھے، وہ دونوں ہر تیسرے دن ایک دوسرے کو خط لکھتے تھے، اور پچھلے خط میں انہوں نے اسے اطلاع دی تھی انہیں بمبئی ہی میں بڑی عمدہ ملازمت مل گئی ہے، ملازمت کے ساتھ جو خوفناک شاخسانے بھی تھے اس کا ذکر انہوں نے خط میں نہیں کیا تھا۔

ایک برس گزر گیا مگر انہوں نے الماس سے شادی کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا، آخر عثمانی بیگم نے طے کیا کہ خود ہی ان سے صاف صاف بات کرلینا چاہئیے، عین مناسب ہوگا۔ مگر تب ہی پرتاب گڑھ سے تار آیا کہ خورشید عالم کے والد سخت بیمار ہیں اور وہ چھٹی لے کر وطن واپس روانہ ہوگئے۔ ان کو پرتاب گڑھ گئے چند روز ہی گزرے تھے کہ الماس جو ان کی طرف سے نا امید ہوچکی تھی ایک شام اپنی سہلیوں کے ساتھ ایک جرمن پیانست کا کنسرٹ سننے تاج محل میں گئی۔ کرسٹل روم میں حسب معمول بوڑھے پارسیوں اور پاسنوں کا مجمع تھا، اور ایک حسین آنکھوں والی پارسی لڑکی کنسرٹ کا پروگرام بانٹی پھر رہی تھی۔ ایک شناسا خاتون نے الماس کا تعارف اس لڑکی سے کرایا، الماس نے حسب عادت بڑی ناقدانہ اور تیکھی نظروں سے اس اجنبی لڑکی کا جائزہ لیا لڑکی بے حد حسین تھی،’ آپ کا نام کیا بتایا مسز رستم جی نے؟‘ الماس نے ذرا مشتاقانہ انداز میں سوال کیا۔

’پیروجا دستور ‘ لڑکی نے سادگی سے جواب دیا۔ ’ میں نے آپ کو پہلے کسی کنسرٹ وغیرہ میں نہیں دیکھا۔‘

’میں سات برس بعد پچھلے ہفتے ہی پیرس سے آئی ہوں۔‘

’سات برس پیرس میں تب تو آپ فرنچ خوب فر فر بول لیتی ہوں گی؟‘ الماس نے ذرا ناگواری سے کہا۔ ’جی ہاں‘ پیروجا ہنسنے لگی۔ اب خاص خاص مہمان جرمن پیانسٹ کے ہمراہ لاؤنج کی سمت بڑھ رہے تھے۔ پیروجا الماس سے معذرت چاہ کر ایک انگریز خاتون سے اس پیانسٹ کی موسیقی پر بے حد ٹیکنیکل قسم کا تبصرہ کرنے میں منہمک ہوگئی، لیکن لیکن لاؤنج میں پہنچ کر الماس پھر اس لڑکی سے ٹکرا گئی۔ ’کمرے میں چائے کی گہما گہمی شروع ہوچکی ہے، آئیے یہاں بیٹھ جائیں‘ پیرو جا نے مسکرا کر الماس سے کہا۔ وہ دونوں دریچے سے لگی ہوئی ایک میز پر آمنے سامنے بیٹھ گئیں۔ ’ آپ تو ویسٹرن میوزک کی ایکسپرٹ معلوم ہوتی ہیں‘ الماس نے ذرا رکھائی سے بات شروع کی کیونکہ وہ خوب صورت اور کم عمر لڑکیوں کو ہر گز برداشت نہ کرسکتی تھی۔ ’ جی ہاں میں پیرس میں پیانو کی اعلی تعلیم کیلئے گئی تھی۔‘

الماس کے ذہن میں کہیں دور خطرے کی گھنٹی بجی اس نے باہر سمندر کی شفاف اور بے حد نیلی سطح پر نظر ڈال کر بڑے اخلاق اور بے تکلفی سے کہا،’ ہاؤ انٹسرٹنگ، پیانو تو ہمارے پاس بھی موجود ہے کسی روز آکر کچھ سنا‘۔ ’ضرور‘ پیروجا نے مسرت سے جواب دیا، ’سنیچر کے روز کیا پروگرام ہے تمہارا میں اپنے ہاں ایک پارٹی کر رہی ہوں، سہیلیاں تم سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔‘

’آئی وڈ لو ٹو کم۔۔۔تھینک یو؟‘

"تم رہتی کہا ہو پیرو جا؟ ‘

پیروجا نے تار دیو کی ایک گلی کا پتہ بتایا، الماس نے ذرا اطمنان کی سانس لی، تار دیو مفلوک الحال پارسیوں کا محلہ ہے۔ ’میں اپنے چچا کے ساتھ رہتی ہوں میرے والد کا انتقال ہوچکا ہے، میرے کوئی بھائی بہن بھی نہیں، مجھے چچا ہی نے پالا ہے، وہ لاولد ہے ، چچا ایک بینک میں کلرک ہیں‘ ۔پیروجا سادگی سے کہتی رہی۔ پھر ادھر ادھر کی چند باتوں کے بعد سمندر کی پر سکون سطح دیکھتے ہوئے اس نے اچانک کہا ’کیسی عجیب بات ہے، پچھلے ہفتہ جب میرا جہاز اس ساحل کی طرف بڑھ رہا تھا تو میں سوچ رہی تھی کہ اتنے عرصے کے بعد اجنبیوں کی طرح بمبئی واپس پہنچ رہی ہوں، یہ بڑا کٹھور شہر ہے تم کو معلوم ہی ہوگا، الماس مخلص دوست یہاں بہت مشکل سے ملتے ہیں، مگر میری خوشی دیکھو آج تم سے ملاقات ہوگئی۔‘

الماس نے دردمندی کے ساتھ سر ہلا دیا، لاؤنج میں باتوں کی دھیمی دھیمی بھنبھناہٹ جاتی تھی، چند لمحوں کے بعد اس نے پوچھا ’تم پیرس کیسے گئیں؟ ‘

’مجھے اسکالر شپ مل گیا تھا، وہاں پیانو کی ڈگری کی بعد چند سال تک میوزک کالج میں ریسرج کرتی رہی/ میں وہاں بہت خوش تھی مگر یہاں میرے چچا بالکل اکیلے تھے، وہ دونوں بہت بوڑھے ہوچکے ہیں، چچی بیچاری تو ضعیف العمری کی وجہ بالکل بہری بھی ہوگئیں ہیں ان کی خاطر وطن واپس آئی اور اس کے علاوہ۔۔۔۔۔‘

’ہلو الماس تم یہاں بیٹھی ہوں، چلو جلدی مسز ملگاؤں تم کو بلا رہی ہیں‘ ایک خاتون نے میز کے پاس آکر کہا۔ پیروجا کی بات ادھوری رہ گئی، الماس نے اس سے بات کہتے ہوئے معذرت چاہی کہ وہ سنیچر کو صبح گیارہ بجے کار بھیج دے گی، وہ میز سے اٹھ کر مہمانوں کے مجمع میں کھو گئی۔

سنیچر کے روز پیروجا الماس کے گھر پہنچی، جہاں مرغیوں کی پارٹی اپنے عروج پر تھی۔ بیٹلز کے ریکارڈ بج رہے تھے۔ چند لڑکیاں جنہوں نے چند روز پہلے ایک فیشن شو میں حصہ لیا تھا، زور شور سے اس پر تبصرہ کر رہی تھیں۔ یہ سب لڑکیاں جن کی ماتر بھاشائیں اردو، ہندی، گجراتی اور مراٹھی تھیں، انگریزی اور صرف انگریزی بول رہی تھیں۔ اور انہوں نے بے حد چست پتلونیں پہن رکھی تھیں۔ پیروجا کو ایک لمحے کیلئے محسوس ہوا کہ وہ ابھی ہندوستان واپس نہیں آئی ہے۔ برسوں یورپ میں رہ کر اسے معلوم ہوچکا تھا کہ جنتا کی زندہ تصویروں کے بجائے ان مغربیت زدہ ہندوستانی خواتین کو دیکھ کر اہل یورپ کو سخت افسوس اور مایوسی ہوتی ہے، چنانچہ پیروجا پیرس اور روم میں اپنی ٹھیٹ ہندوستانی وضع قطع پر بڑی نازاں رہتی تھی، بمبئی کی ان نقلی امریکن لڑکیوں سے اکتا کر وہ بالکنی میں جا کھڑی ہوئی جس کے سامنے سمندر تھا اور پہلو میں برج خموشاں کا جنگل نظر آرہا تھا۔ وہ چونک اٹھی گھنے جنگل کے اوپر کھلی فضاؤں میں چند گدھ اور کوے منڈلا رہے تھے، اور چاروں طرف بڑا ڈراؤنا سناٹا طاری تھا۔ وہ گھبرا کر واپس نیچے اتری اور زندگی سے گونجتے ہوئے کمرے میں آکر صوفے پر ٹک گئی۔

کمرے کے ایک کونے میں غالبا بطور آرائش گرینڈ پیانو رکھا ہوا تھا، لڑکیاں اب ریڈیو گرام پر ببلی ببلا فوٹنے کا پران کلسپو جمیکا فئیر بجارہی تھی، اور گٹار کی جان لیوا گونج کمرے میں پھیلنے لگی۔






ستاروں سے آگے
-------------------

کرتار سنگھ نے اونچی آواز میں ایک اور گیت گانا شروع کردیا۔ وہ بہت دیر سے ماہیا الاپ رہا تھا جس کو سنتے سنتے حمیدہ کرتار سنگھ کی پنکج جیسی تانوں سے، اس کی خوبصورت داڑھی سے، ساری کائنات سے اب اس شدت کے ساتھ بیزار ہو چکی تھی کہ اسے خوف ہو چلا تھا کہ کہیں وہ سچ مچ اس خواہ مخواہ کی نفرت و بیزاری کا اعلان نہ کر بیٹھے۔ اور کامریڈ کرتار ایسا سویٹ ہے فوراً برا مان جائے گا۔ آج کے بیچ میں اگر وہ شامل نہ ہوتا تو باقی کے ساتھی تو اس قدر سنجیدگی کے موڈ میں تھے کہ حمیدہ کو زندگی سے اکتا کر خود کشی کرنا جاتی۔ کرتار سنگھ گڈو گراموفون تک ساتھ اٹھا لایا تھا۔ ملکہ پکھراج کا ایک ریکارڈ تو کیمپ ہی میںٹوٹ چکا تھا، لیکن خیر۔
حمیدہ اپنی سرخ کنارے والی ساری کے آنچل کو شانوں کے گرد بہت احتیاط سے لپیٹ کر ذرا اور اوپر کو ہو کے بیٹھ گئی جیسے کامریڈ کرتار سنگھ کے ماہیا کو بے حد دلچسپی سے سن رہی ہے۔ لیکن نہ معلوم کیسی الٹی پلٹی الجھی الجھی بے تکی باتیں اس وقت اس کے دماغ میں گھسی آرہی تھیں۔ وہ ”جاگ سوز عشق جاگ“ والا بیچارہ رشکارڈ شکنتلا نے توڑ دیا تھا۔
”افوہ بھئی۔“ بیل گاڑی کے ہچکولوں سے اس کے سر میں ہلکا ہلکا درد ہونے لگا اور ابھی کتنے بہت سے کام کرنے کوپڑے تھے۔ پورے گاؤں کو ہیضے کے ٹیکے لگانے کو پڑے تھے۔ ”توبہ!“ کامریڈ صبیح الدین کے گھونگریالے بالوں کے سر کے نیچے رکھے ہوئے دواؤں کے بکس میں سے نکل کے دواؤں کی تیز بو سیدھی اس کے دماغ میں پہنچ رہی تھی اور اسے مستقل طور پر یاد دلائے جارہی تھی کہ زندگی واقعی بہت تلخ اور ناگوار ہے.... ایک گھسا ہوا، بیکار اور فالتو سا ریکارڈ جس میں سے سوئی کی ٹھیس لگتے ہی وہی مدھم اور لرزتی ہوئی تانیں بلند ہو جاتی تھیں جو نغمے کی لہروں میں قید رہتے رہتے تھک چکی تھیں۔ اگر اس ریکارڈ کو ، جو مدتوں سے ریڈیو گرام کے نچلے خانے میں تازہ ترین البم کے نیچے دبا پڑا تھا ، زور سے زمین پر پٹخ دیا جاتا تو حمیدہ خوشی سے ناچ اٹھی۔ کتنی بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو وہ چاہتی تھی کہ دنیا میں نہ ہوتیں تو کیسا مزہ رہتا.... اور اس وقت تو ایسا لگا جیسے سچ مچ اس نے "I dream I dwell in marble halls."والے گھسے ہوئے ریکارڈ کو فرش پر پٹخ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے اور جھک کر اس کی کرچیں چنتے ہوئے اسے بہت ہی لطف آرہا ہے۔ عنابی موزیک کے اس فرش پر، جس پر ایک دفعہ ایک ہلکے پھلکے فوکس ٹروٹ میں بہتے ہوئے اس نے سوچا تھا کہ بس زندگی سمٹ سمٹا کے اس چمکیلی سطح، ان زرد پردوں کی رومان آفرین سلوٹوں اور دیواروں میں سے جھانکتی ہوئی ان مدھم برقی روشنیوں کے خواب آور دھندلکے میں سما گئی ہے، یہ تپش انگیز جاز یونہی بجتا رہے گا، اندھیرے کونوں میں رکھے ہوئے سیاہی مائل سبز فرن کی ڈالیاں ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکوں میں اس طرح ہچکولے کھاتی رہیں گی اور ریڈیو گرام ہمیشہ پولکا اور رمبا کے نئے نئے ریکارڈ لگتے جائیں گے۔ یہ تھوڑا ہی ممکن ہے کہ جو باتیں اسے قطعی پسند نہیں وہ بس ہو تی ہی چلی جائیں.... ریکارڈ گھستے جائیں اور ٹوٹتے جائیں۔
....لیکن یہ ریکارڈوں کا فلسفہ ہے آخر؟ حمیدہ کو ہنسی آگئی۔ اس نے جلدی سے کرتار سنگھ کی طرف دیکھا ۔ کہیں وہ یہ نہ سمجھ لے کہ وہ اس کے گانے پر ہنس رہی ہے۔
کامریڈ کرتار گائے جا رہا تھا۔ ” وس وس وے ڈھولنا....“ اف! یہ پنجابی کے کے بعض الفاظ کس قدر بھونڈے ہوتے ہیں۔ حمیدہ ایک ہی طریقے سے بیٹھے بیٹھے تھک کے بانس کے سہارے آگے کی طرف جھک گئی ۔ بہتی ہوئی ہوا میں اس کا سرخ آنچل پھٹپھٹائے جا رہا تھا۔

(بشکریہ ''سمت'')

===================================

No comments:

Post a Comment

z

z