مدیر: ثمینہ راجہ

Saturday, December 12, 2009

ن م راشد

*
*
*
رقص


اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو
رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی
ڈھونڈلے مجھ کو، نشاں پالے مرا
اور جُرم عیش کرتے دیکھ لے
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
رقص کی یہ گردشیں
ایک مبہم آسیا کے دَور ہیں
کیسی سرگرمی سے غم سے روندتا جاتا ہوں میں
جی میں کہتا ہُوں کہ ہاں
رقص گہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیشتر
کلفتوں کا سنگریزہ ایک بھی رہنے نہ پائے
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی میرے لئے
ایک خونیں بھیڑیے سے کم نہیں
اے حسین و اجنبی عورت اسی کے ڈر سے میں
ہو رہا ہُوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب
جانتا ہوں تو مری جاں بھی نہیں
تُجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں
تُو مری اُن آرزؤں کی مگر تمثیل ہے
جو رہیں مُجھ سے گریزاں آج تک
اے مری ہم رقص مُجھ کو تھام لے
عہدِ پارینہ کا میں انساں نہیں
بندگی سے اس در و دیوار کی
ہو چکی ہیں خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں
جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں
زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں
اس لئے اب تھام لے
اے حسین و اجنبی عورت ، مُجھے اب تھام لے






زندگی سے ڈرتے ہو؟


۔۔۔۔ زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو، ادمی تو ہم بھی ہیں
آدمی زباں بھی ہے، آدمی بہیاں بھی ہے
اس سے تم نہین درتے
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے
ان کہی'' سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی، اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو

۔۔۔۔۔۔۔ پہلے بھی تو گزرے ہیں
دَور نا رسائی کے، ''بے ریا'' خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی
یہ شب ِ زناں بندی، ہے رہ ِ خدا وندی
تم مگر یہ کیا جانو
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں، راہ کا نشان بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں
روشنی سے ڈرتے ہو
۔۔۔۔۔۔ شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایا تھا، پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر، خاک ہو گیا آخر
اژدہام ِ انساں سے فرد کی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے
آدمی چھلک اٹھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟




انتقام


اُس کا چہرہ، اس کے خد و خال یاد آتے نہیں
اک شبستاں یاد ہے
اک برہنہ جسم آتشداں کے پاس
فرش پر قالین، قالینون پہ سیج
دھات اور پتھر کے بُت
گوشہء دیوار میں ہنستے ہوئے
اور آتشداں میں انگاروں کا شور
ان بتوں کی بے حسی پر خشمگیں؛
اجلی اجلی اونچی دیواروں پہ عکس
ان فرنگی حاکموں کی یادگار
جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں
سنگ ِ بنیاد ِ فرنگ

اس کا چہرہ اس کے خد و خال یاد آتے نہیں
اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے
اجنبی عورت کا جسم
میرے '' ہونٹوں '' نے لیا تھا رات بھر
جس سے ارباب ِ وطن کی بے بسی کا انتقام
وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے




===================================

No comments:

Post a Comment

z

z