مدیر: ثمینہ راجہ

Monday, December 14, 2009

مجید امجد

*
*
*
بنے یہ زہر ہی وجہِ شفا، جو تو چاہے
خرید لوں میں یہ نکلی دوا، جو تو چاہے

تجھے تو علم ہے کیوں میں نے اس طرح چاہا
جو تو نے یوں نہیں چاہا تو کیا، جو تو چاہے

جب ایک سانس گھسے، ساتھ ایک نوٹ پسے
نظامِ زر کی حسیں آسیا، جو تو چاہے

ذرا شکوہِ دو عالم کے گُنبدوں میں لرز
پھر اس کے بعد تیرا فیصلہ، جو تو چاہے

سلام ان پر، تہِ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تو چاہے

جو تیرے باغ میں مزدوریاں کریں امجد
کھلیں وہ پھول بھی اک مرتبہ، جو تو چاہے


منٹو


میں نے اس کو دیکھا ہے
اجلی اجلی سڑکوں پر
اک گرد بھری حیرانی میں
پھیلتی پھیلتی بھیڑ کے اندھے اوندھے
کٹوروں کی طغیانی میں
جب وہ خالی بوتل پھینک کر کہتا ہے:
" دنیا تیرا حسن یہی بدصورتی ہے-"
دنیا اس کو گھورتی ہے
شورِ سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے
انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال
کون ہے یہ جس نے اپنی بہکی بہکی سانسوں
کا جال
بامِ زماں پر پھینکا ہے
کون ہے جو بل کھاتے ضمیروں کے پرپیچ
دھندلکوں میں
روحوں کے عفریت کدوں کے زہر اندوز
محلکوں میں
لے آیا ہے یوں بن پوچھے اپنا آپ
عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں
کی چاپ
کون ہے یہ گستاخ
تاخ تڑاخ





بنے یہ زہر ہی وجہِ شفا، جو تو چاہے
خرید لوں میں یہ نکلی دوا، جو تو چاہے

تجھے تو علم ہے کیوں میں نے اس طرح چاہا
جو تو نے یوں نہیں چاہا تو کیا، جو تو چاہے

جب ایک سانس گھسے، ساتھ ایک نوٹ پسے
نظامِ زر کی حسیں آسیا، جو تو چاہے

ذرا شکوہِ دو عالم کے گُنبدوں میں لرز
پھر اس کے بعد تیرا فیصلہ، جو تو چاہے

سلام ان پر، تہِ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تو چاہے

جو تیرے باغ میں مزدوریاں کریں امجد
کھلیں وہ پھول بھی اک مرتبہ، جو تو چاہے


===


دل نے ایک ایک دکھ سہا، تنہا
انجمن انجمن رہا، تنہا

ڈھلتے سایوں میں، تیرے کوچے میں
کوئی گزرا ہے بارہا، تنہا

تیری آہٹ قدم قدم اور میں
اس معیٓت میں بھی رہا، تنہا

کہنہ یادوں کے برف زاروں سے
ایک آنسو بہا، بہا، تنہا

دوبتے ساحلوں کے موڑ پہ دل
اک کھنڈر سا، رہا سہا، تنہا

گونجتا رہ گیا خلاؤں میں
وقت کا ایک قہقہہ، تنہا


===


جنونِ عشق کی رسمِ عجیب کیا کہنا
میں اُن سے دور وہ میرے قریب کیا کہنا

یہ تیرگیء مسلسل میں ایک وقفۂ نور
یہ زندگی کا طلسمِ عجیب کیا کہنا

جو تم ہو برقِ نشیمن تو میں نشیمنِ برق
اُلجھ پڑے ہیں ہماے نصیب کیا کہنا

ہجومِ رنگِ فراواں سہی۔۔ مگر پھر بھی
بہار۔۔ نوحۂ صد عندلیب کیا کہنا

ہزار قافلۂ زندگی کی تیرہ شبی
یہ روشنی سی افق کے قریب، کیا کہنا

لرز گئی تری لَو میرے ڈگمگانے سے
چراغِ گوشۂ کوئےِ حبیب ! کیا کہنا





روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گُلاب کے پھول
حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گُلاب کے پھول

اُفق اُفق پہ زمانوں کی دُھند سے اُبھرے
طُیور، نغمے، ندی،تتلیاں، گلاب کے پھول

کس انہماک سے بیٹھی کشید کرتی ہے
عروسِ گل بہ قباۓ جہاں گلاب کے پھول

یہ میرا دامنِ صد چاک، یہ رداۓ بہار
یہاں شراب کے چھینٹے، وہاں گلاب کے پھول

کسی کا پھول سا چہرہ اور اس پہ رنگ افروز
گندھے ہوئی بہ خمِ گیسواں، گلاب کے پھول

خیالِ یار ! ترے سلسلے نشوں کی رُتیں
جمالِ یار ! تری جھلکیاں گلاب کے پھول

مری نگاہ میں دورِ زماں کی ہر کروٹ
لہو کی لہر، دِلوں کا دھواں، گلاب کے پھول

سلگتے جاتے ہیں چُپ چاپ ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرۂ پیغمبراں گلاب کے پھول

یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں باہیں
چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول

کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول

===================================

No comments:

Post a Comment

z

z