مدیر: ثمینہ راجہ

Thursday, December 10, 2009

میر تقی میر

*
*
*
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

عہد جوانی رو رو کاٹا، پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

یاں کے سفید و سیاہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا، یا دن کو جوں توں شام کیا

میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو اس نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا





میر دریا ہے سنو شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبعیت کی روانی اس کی

مینہ تو بوچھاڑ کا دیکھا ہے برستے تم نے؟
اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی

بات کی طرز کو کوئی دیکھو تو جادو تھا
پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اس کی

سرگزشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا
سو گئے تم نہ سنی آہ! کہانی اس کی

متثیے دل کے کئی کر کے دیے لوگوں کو
شہر دلی میں ہے سب پاس نشانی اس کی

اب کئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل
حیف صد حیف! کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی





دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے

خانہء دل سے زنہار نہ جا
کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے

نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا
شور ایک آسماں سے اٹھتا ہے

لڑتی ہے چشمِ شوخ اس کی جہاں
ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے

سدھ لے گھر کی بھی شعلہء آواز
دود کچھ آشیاں سے اٹھتا ہے

بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے

یوں اُٹھے آہ اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے

===================================

No comments:

Post a Comment

z

z